پی پی 83خوشاب:10امیدوارمد مقابل:تحریک انصاف اور ن لیگ دو: دو دھڑوں میں تقسیم

0
85

کراچی:پنجاب کے ضمنی انتخابات میں خوشاب کے حلقے پی پی 83 نے خاص اہمیت حاصل کر لی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے ناراض کارکن ملک حامدمحمود ڈھل ٹوانہ جبکہ مسلم لیگ ن کے سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی ملک محمد آصف بھاءاپنی اپنی پارٹیوں کی جانب سے ٹکٹ جاری نہ کیے جانے پر آزاد حیثیت سے میدان میں اتر رہے ہیں۔

حلقہ پی پی 83 خوشاب میں ووٹوں کی کل ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 22 ہزار 428 ہے۔ جس میں مرد ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ 68 ہزار 279 ہے جبکہ اس حلقہ میں خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 54 ہزار149 ہے۔ اس حلقے میں ٹوٹل پولنگ اسٹیشنز کی تعداد 215 ہےجس میں53 خواتین کے پولنگ اسٹیشنز ہیں اور53 ہی مردوں کے لیے واقف کیے گئے ہیں اور 109 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقے میں قائم کیے جانے والے پولنگ بوتھ کی کل تعداد 626 ہے جن میں سے 328 مردوں کیلئے اور 298 خواتین کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ خوشاب کے حلقے پی پی 83 میں سات آزاد امیدواروں سمیت 10 امیدوار انتخابی میدان میں مدِ مقابل ہوں گے۔حلقہ پی پی 83 سے کسی بھی خاتون امیدوار نے انتخابی میدان میں حصہ نہیں لیا۔

مسلم لیگ ن نے ملک امیر حیدر سنگھا کو میدان میں اتارا ہے۔ ملک امیر حیدر سنگھا منحرف سابق ایم پی اے ملک غلام رسول سنگھا کے بھائی ہیں۔ جنہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی سیٹ کیا گیا جس کے بعد مسلم لیگ ن نے ان کے بھائی ملک امیر حیدر سنگھا کو ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

ملک امیر حیدر سنگھا کی فیملی سیاسی بیگ گراؤنڈ رکھتی ہے۔ وہ خود بھی ماضی میں چیئرمین ضلع کونسل خوشاب بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ملک امیر مختار سنگھا بھی چیئرمین ضلع کونسل خوشاب رہ چکے ہیں۔اس حلقے میں تحریک انصاف نے ملک حسن اسلم اعوان کو مقابلے کے لیے میدان میں اتارا ہے، جن کا بطور امیدوار یہ پہلا الیکشن ہے۔ملک حسن اسلم خان خوشاب سابق وفاقی وزیر تجارت و سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ملک نعیم خان اعوان مرحوم کے بھانجے ہیں اور پی ٹی آئی کے موجودہ مستعفی ایم این اے ملک اعوان کے چھوٹے بھائی ہیں۔

ملک حسن اسلم اعوان کی الیکشن مہم میں پی ٹی آئی کے علی محمد خان اور زرتاج گل پیش پیش دکھائی دے رہی ہیں۔ اس حلقے میں آزاد امیدوار بھی اپنی جیت کے لیے پرعزم ہیں۔ ان آزاد امیدواروں میں ملک محمد آصف قابل ذکر ہیں۔ ان کا انتخابی نشان مٹکا ہے۔ملک محمد آصف بھاء تین بار صوبائی اسمبلی کے رُکن رہ چکے ہیں۔ ملک محمد آصف نے 2013ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر مسلم لیگ ن کے دورِ اقتدار میں مختلف صوبائی وزارتوں کا قلمبند سنبھالے رکھا، البتہ 2018ء کے انتخابات میں ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ملک محمد آصف نے اس حلقے سے شیر کے نشان کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کی خواہش ظاہر کی تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے منحرف ایم پی اے کے بھائی غلام رسول سنگھا کو ٹکٹ ملنے کے بعد ملک محمد آصف بھاء نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے ضلع خوشاب میں مسلم لیگ ن کے ووٹرز کی بھی ان کو سپورٹ حاصل ہے۔ ایک اور آزاد امیدوار ملک حامد محمود ڈھل کا شمار حلقے کے بااثر سیاسی گھرانے اور بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ ملک حامدمحمود ڈھل ٹوانہ پی ٹی آئی ضلع خوشاب کے اہم کارکن تھے، اور بلے کے نشان پر انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے، تاہم پارٹی کی جانب سے ٹکٹ جاری نہ کیے جانے پر انہوں نے آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحریک لبیک پاکستان نے اپنے فعال کارکن زمرد عباس خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ناراض کارکن ملک حامد محمود ڈھل کے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کے باعث حلقہ پی پی 83 خوشاب میں اب پی ٹی آئی دو حصوں میں تقسیم ہے، جس کا فائدہ دیگر امیدواراں کو ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں جاری مہنگائی کی لہر ہے جو آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سےگیارہ امیدواروں نے حصہ لیا۔ پی ٹی آئی کاٹکٹ ملک گل اصغر کو دیا گیا، البتہ وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتےتھے اس لئے وہ ٹکٹ لینے کے بعد عین اس وقت الیکشن لڑنے سے انکاری ہو گئے جب نشانات بھی الاٹ ہو چکےتھے،جس کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف نے معروف بزنس مین ملک امیر مختار سنگھاا عوان کے بھائی اور سابق تحصیل ناظم ملک غلام رسول سنگھا اعوان کی سپورٹ کی جس کے باعث وہ بھاری مارجن سےجیت گئے۔ انہوں نے 68 ہزار 959 ووٹ لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ ان کےمدمقابل ملک محمدآصف بھا جن کاتعلق پاکستان مسلم لیگ ن سےتھااوروہ صوبائی وزیربھی رہے47 ہزار 684 ووٹ لیکر رنراپ رہے۔
اس حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کےامیدوار دلدار حسین رضوی نے9 ہزار 563 اور ایک آزادامیدوارملک ظفرا للہ خان بگٹی نے 10 ہزار 863 ووٹ لئے۔ پی پی کےٹکٹ پر نثار احمد خان نے ایک ہزار 899 ووٹ لئے۔ اس حلقہ میں ہڈالی، مٹھہ ٹونہ،بوتالہ و دیگر علاقے شامل ہیں،

2013تک مسلم لیگ ن کا ڈنکا بجتا رہا لیکن عمران خان نے بالآخر 2018 میں یہ نشست ایک آزاد امیدوار کی حمایت کرکےجیتی ن لیگ نےسنگھاگروپ کوٹکٹ کنفرم کردیاہےتووہیں ملک آصف بھاءنےآزادالیکشنلڑنےکااعلان کردیاہے،جبکہ پاکستان تحریک انصاف ملک حسن اسلم اعوان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

حلقہ 83 پی پی کے مسائل کی بات کی جائے تو اس حلقے میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ حلقے کی عوام کو پینے کے پانی سے لیکر اراضی سیراب کرنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں صحت کے حوالے سے بنیادی صحت کے مراکز میں زچہ و بچہ کیلئے کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔سابقہ دور حکومت میں پی پی 83 میں تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کی گئی اور یہاں ایک بڑی بین الصوبائی شاہرہ کی بھی تعمیر کی گئی جو حلقہ پی پی 83 سے گزرتی ہے۔

گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی اس حلقے میں کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں تھی اور وہ یہاں سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں ہار بیٹھی تھی۔ حلقہ پی پی 83 خوشاب میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 93 اور این اے 94 آتا ہے۔ حلقہ این اے 93 میں پاکستان تحریک انصاف کے عمر اسلم خان ایم این اے ہیں، جن کے بھائی ملک حسن اسلم اعوان پی پی 83 خوشاب سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جبکہ حلقہ این اے 94 سے پی ٹی آئی کے ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ ایم این اے ہیں ۔

سندھ میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پیپلزپارٹی کی خالدہ سکندر میندھرو نے اپنے نام کرلی ۔

 

 

ڈاکٹر سکندر میندھرو کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی سندھ میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پولنگ سندھ اسمبلی میں ہوئی، مرحوم ڈاکٹر سکندر میندھرو کی اہلیہ خالد ہ سکندر میندھرو پیپلزپارٹی کی جانب سے امیدوار تھیں اور مقابل میں پی ٹی آئی کے نور الحق قریشی میدان میں تھے البتہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا جبکہ ایم کیوایم پاکستان اور دیگر جماعتوں نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

 

 

پیپلزپارٹی کی جانب سے 99 میں سے 94 ارکان بشمول وزیر اعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سمیت پی ٹی آئی کے تین منحرف ارکان اسلم ابڑو، شہریار شر اور کریم بخش گبول نے بھی ووٹ کاسٹ کیا ۔ذاتی مصروفیات کے باعث پیپلزپارٹی کے پانچ ارکان شرمیلا فاروقی،اعجاز شاہ بخاری، عذرا پیچوہو، اسماعیل راہو اور علی نواز مہر نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

Leave a reply