کہیں پرچے لیک توکہیں پرچے چوری پبلک سروس کمیشن کے اپنے ہی لوگ اشتہاری نکلے

0
24

لاہور:کہیں پرچے لیک توکہیں پرچے چوری پبلک سروس کمیشن کے اپنے ہی لوگ اشتہاری نکلے،اطلاعات کے مطابق پنجاب پبلک سروس کمیشن جہاں کہیں ایک طرف پرچے لیک ہوتےہیں تودوسری طرف دوسرے انداز سے اسی دھندے کوجاری رکھنے کےلیے پرچے چوری کروائے جاتے ہیں ،

اس حوالے سے پنجاب پبلک سروس کمیشن پرچہ سکینڈل تحقیقات کی مکمل دستاویزات منظر عام پر آگئیں، دو حاضر سروس اسسٹنٹ کمشنرز اور ایک ایچ ای سی کا کنسلٹنٹ پرچے چوری میں معاونت کرتے رہے۔

پبلک سروس کمیشن کے 9 ملازمین براہ راست جبکہ 4 افسران نا اہلی کے باعث ذمہ دار قرار پائے گئے۔

اس حوالے سے بڑی دلچسپ معلومات سامنے آئی ہیں‌جن کے مطابق پنجاب پبلک سروس کمیشن پرچہ سکینڈل دستاویزات کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر مشتاق حسین، اسسٹنٹ کمشنر محسن نثار اور کنسلٹنٹ فہد احمد علی پرچے چوری میں ملوث پائے گئے۔

پرچے چوری ہونے والی تحقیقات میں بڑی عجیب وغریب معلومات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق سینئر پروگرامر محمد عباس فی پرچہ 2 لاکھ روپے میں جبکہ فرقان احمد پرچوں کی تصویر اتار کر چوری میں ملوث رہے۔

اسی حوالے سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سپریٹنڈنٹ خورشید عالم نے انسپکٹر ایف آئی اے کے پرچے 5 لاکھ جبکہ محمد عبداللہ نے 1 لاکھ سے 4 لاکھ میں پرچے فروخت کیے۔

اسسٹنٹ بلال حسین نے 2 سے 2.5 لاکھ جبکہ محمد شہزاد نے تصاویر اتار کر فروخت کیں۔ جونیئر آپریٹر وقاص اکرم یو ایس بی کے راستے پرچے سافٹ کاپی میں فروخت کرتے رہے۔

محمد اویس نامی جونیئر آپریٹر اور رفیع اللہ 2 سے 2.5 لاکھ روپے میں پرچے فروخت رہے۔ممبر پبلک سروس کمیشن امجد جاوید سلیمی نے پانچ سینیئر افسران کو بھی پرچے لیکیچ کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

سابق ڈائریکٹر محمد امجد، برانچ آفیسر اسد اللہ، عامر علی اور عاصم شاہ بھی ذمہ دار قرار دیئے گئے۔چیئرمین پبلک سروس کمیشن نے پیڈا ایکٹ کے تحت تین رکنی نئی انکوائری کمیٹی تشکیل دیتے 60 روز میں جواب طلب کرلیا۔

Leave a reply