تشنگی کی راتیں: کربلا کی ساتویں اور آٹھویں شب
تحریر:سید ریاض حسین جاذب
سلام ہو حسینؑ پر…
سلام ہو ان پر جو پیاسے رہے مگر سچائی کو تر رکھا،
سلام ہو عباسؑ پر… جو دریا کے کنارے تک پہنچے مگر وفا کے پیکر بن کر واپس لوٹ آئے۔
محرم کی ساتویں شب وہ لمحہ ہے جب کربلا کے آسمان پر تپتی دھوپ کا سایہ گہرا ہونے لگا، جب خیموں میں معصوم بچے پانی کو ترسنے لگے، اور جب صحرائے کربلا کے ذرے ذرے نے پیاس کے مارے لبوں کی صدائیں اپنے سینے میں دفن کر لیں۔ چھٹے محرم کے بعد ذخیرہ شدہ پانی ختم ہو چکا تھا۔ سات محرم کا سورج آگ برسا رہا تھا۔ ماؤں کی گود میں بلکتے بچے، پانی کی تلاش میں دوڑتی بچیاں، اور خالی مشکیزوں کو دیکھتے مردوں کی آنکھیں… یہ سب کچھ کربلا کے ماتمی منظر کو اور ہولناک بنا رہا تھا۔
امام حسینؑ جانتے تھے کہ پانی کا ایک ایک قطرہ اب امانت ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حضرت سکینہؑ پیاس سے نڈھال تھی، مگر ان کے لہجے میں شکایت نہیں تھی، فقط ایک سوال تھا: "بابا! کل پانی ملے گا نا؟”
شیعہ روایات اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسینؑ کے قافلے کو ساتویں محرم سے دسویں محرم کی شب تک پانی میسر نہ تھا۔ تشنگی کی یہ حالت صرف جسمانی نہیں، بلکہ روحانی آزمائش بھی تھی۔ خیموں میں بڑوں کے ہونٹ خشک ہو چکے تھے، بچوں کی چیخیں دل چیر رہی تھیں، اور صبر کا وہ پہاڑ تھا جو صرف حسینؑ کے کارواں کو نصیب تھا۔
امامؑ کے ایک وفادار ساتھی، یزید بن حسین الحمدانی، نے بچوں کی بلکتی آوازیں سن کر امامؑ سے عمر بن سعد کے پاس جانے کی اجازت طلب کی۔ وہ دربار یزید کے اس نمائندے کے سامنے گئے اور کہا: "تم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟” ابن سعد نے جواب دیا، "کیوں نہیں، میں مسلمان ہوں!”
الحمدانی بولے: "تو پھر رسول اللہؐ کے نواسے اور ان کے ننھے بچوں کو پانی سے محروم رکھنا کون سا اسلام ہے؟ کیا تم قیامت کے دن رسولؐ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟”
ابن سعد نے بڑی سفاکی سے کہا، "قیامت کی فکر بعد میں کروں گا، ابھی مجھے رے کی حکومت چاہیے!”
اس پر امام حسینؑ نے حضرت عباسؑ کو حکم دیا کہ بیس سواروں کے ساتھ دریا کی طرف جائیں اور پانی لانے کی کوشش کریں۔ جیسے ہی عباسؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرات کے کنارے پہنچے، یزیدی سپاہی حجاج نے انہیں روکا۔ دونوں جانب سے تلواریں چلیں، تیروں کی بوچھاڑ ہوئی۔ عباسؑ اور ان کے وفادار ساتھی چند مشکیزے بھرنے میں کامیاب ہوئے، لیکن واپسی پر ہجوم اور تیزی میں کچھ برتن الٹ گئے، پانی زمین پر بہہ گیا۔ جو پانی خیموں میں پہنچا، وہ پیاس بجھانے کے لیے ناکافی تھا، مگر سکینہؑ کے لب تر ہوئے تو ماں کی آنکھ بھیگ گئی۔
انھی لمحوں میں ایک اور واقعہ کربلا کی تپتی ریت پر رقم ہوا۔ یزیدی لشکر کا ایک سپاہی، عبداللہ بن حسین العزدی، فرات کے کنارے کھڑا ہو کر طنز کرتا ہے: "حسین! یہ دیکھو، یہ شفاف پانی! خدا کی قسم، ایک قطرہ بھی تمہیں نصیب نہ ہوگا!”
امامؑ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: "اے پروردگار! اسے زندگی میں ایسی پیاس دے جو کسی نے نہ چکھی ہو!”
راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ سپاہی دریا سے پانی پیتا رہا، قے کرتا رہا، بار بار پیتا، یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ فرات کے پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ابن سعد کو غصہ آیا کہ حسینؑ کے سوار دریا سے پانی لا سکے۔ اس نے دریا کا پہرہ مزید سخت کر دیا، اب پانی کا ایک قطرہ بھی امامؑ کے کیمپ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
آٹھویں شب کو امام حسینؑ خود چند ساتھیوں کے ساتھ ابن سعد سے گفتگو کے لیے نکلے۔ انہیں امید تھی شاید ضمیر کی کوئی چنگاری ابھی باقی ہو۔ امامؑ نے کہا: "کیا تو خدا سے نہیں ڈرتا؟ کیا تو نہیں جانتا میں رسولؐ کا نواسہ ہوں؟ کیا بنو امیہ کی خوشنودی کے لیے مجھے قتل کرو گے؟”
اسی رات، سکینہؑ پھر اپنی ماں سے لپٹ کر کہہ رہی تھی: "امّی! کل پانی ملے گا نا؟”
اور ماں… بس آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی، جیسے دعائیں بھی پیاسی ہو گئی ہوں۔