ٹوکیو اولمپکس اور ایتھلیٹ طلحہ طالب تحریر: ٹوکیو اولمپکس اور ایتھلیٹ طلحہ طالب

0
28

کھیلوں کا سب سے بڑا عالمی میلہ جاپان کے دارلحکومت ٹوکیو میں کورونا وبا کے سائے میں سج گیا ہے۔ کھیلوں کے مقابلے جاپان کے مختلف شہروں میں ہوں گے۔ افتتاحی تقریب میں بھی کورونا کا خوف غالب تھا جس کی وجہ سے رنگا رنگ تقریب میں مہمان انتہائی قلیل تعداد میں موجود تھے اور مارچ پاسٹ میں بھی کھلاڑیوں کی تعداد کم کردی گئی تھی۔
اس عالمی ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں کورونا رولز پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا۔ کھلاڑیوں کے مارچ پاسٹ میں زیادہ تر دستوں نے چہروں پر ماسک لگا رکھے تھے اور سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھا تھا۔ پاکستانی پرچم ماحور شہزاد اور خلیل اختر نے اٹھایا ہوا تھا۔ پاکستانی کھلاڑی سفید شلوار قمیض اور سبز واسکٹ میں ملبوس تھے۔
ٹوکیو اولمپکس میں 33 کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں ریکارڈ 339 گولڈ میڈلز کے لیے دنیا بھر کے 207 ممالک کے 11 ہزار سے زیادہ ایتھلیٹس اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔ اس مرتبہ ٹوکیو اولمپکس میں خواتین کی ایک ریکارڈ تعداد شرکت کر رہی ہے جن کا تناسب 48 فیصد ہے۔
ٹوکیو اولمپکس میں 22 رکنی پاکستانی دستے میں 10 ایتھلیٹس اور 12 آفیشلز شامل ہیں۔ پاکستانی ایتھلیٹس 6 کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کے میڈل جیتنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ اولمپکس تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 خواتین کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں جن میں نیشنل بیڈمنٹن اسٹار ماحور شہزاد، ایتھلیٹ نجمہ پروین اور تیراک بسمہ خان شامل ہیں۔ پاکستان 28 سال سے اولمپک گیمز میں میڈل جیتنے کا منتظر ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی کا عالمی چیمپیئن تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپکس کے عالمی مقابلے کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کرسکی۔
ان سب باتوں میں سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی دستے میں شامل ہونہار اور محنتی ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے 45 سال بعد ویٹ لفٹنگ کے عالمی مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کرکے ملک کا نام روشن کردیا۔ طلحہ طالب نے 67 کلوگرام ویٹ لفٹنگ کیٹگری کے عالمی مقابلے میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے وطنِ عزیز پاکستان اور پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔ طلحہ طالب نے مجموعی طور پر 320 کلوگرام وزن اٹھایا اور اس میں ایک دفعہ 170 کلوگرام وزن اٹھانا بھی شامل ہے۔ وہ صرف 2 کلوگرام کے فرق سے میڈل جیتنے سے محروم رہے۔ مگر انہوں نے پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیے۔ طلحہ طالب کا کہنا تھا کہ اگر ان کو بنیادی سہولیات اور عالمی معیار کا سامان اور تربیت دی جاتی تو وہ ضرور میڈل جیت کر آتے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ طلحہ طالب نے اپنی مدد آپ کے تحت محنت کی بلکہ جس جگہ وہ ہاسٹل میں رہتے تھے اس کا کرایہ بھی وہ خود دیتے تھے۔ ان کو کسی قسم کوئی سپورٹ اور مالی معاونت نہیں کی گئی۔ جب کہ دوسرے ممالک کے ایتھلیٹس کو ہر طرح کی معیاری سہولیات میسر ہوتی ہیں۔
لٰہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایتھلیٹس کو بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا جائے۔ ان کو انٹرنیشنل لیول کی جدید سہولیات اور سامان مہیا کیا جائے۔ ان کی مالی معاونت کی جائے۔ اور سب سے ضروری بات یہ کہ کوچنگ سٹاف بھی انٹرنیشنل لیول کا ہونا چاہیئے۔ ایتھلیٹس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر مقابلے منعقد کیے جائیں تاکہ ہونہار کھلاڑیوں کو موقع مل سکے۔کم از کم ہر یونیورسٹی میں اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جائے جہاں جدید سامان اور سہولیات موجود ہوں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے فنڈ میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہمارے ایتھلیٹس کو مناسب سہولیات میسر ہوں اور وہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔

‎@Rumi_PK

Leave a reply