برطانیہ میں خواجہ سرا خواتین کی جامہ تلاشی اب مرد پولیس اہلکار لیں گے

1 مہینہ قبل
تحریر کَردَہ
trans

برطانوی ٹرانسپورٹ پولیس نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اعلان کیا ہے کہ اب ان کی حراست میں موجود ٹرانس خواتین کی جامہ تلاشی مرد اہلکار لیا کریں گے، نہ کہ خواتین اہلکار۔ یہ عبوری پالیسی اس وقت نافذ کی گئی ہے جب فورس عدالت کے فیصلے کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس پر عملدرآمد کا جائزہ لے رہی ہے۔

بدھ کے روز سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ "عورت” کی تعریف Equality Act 2010 میں "حیاتیاتی عورت” یعنی پیدائش کے وقت کا حیاتیاتی جنس مراد ہے، نہ کہ خود کو شناخت کرنے والی جنس۔برٹش ٹرانسپورٹ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا،”پچھلی پالیسی کے تحت، جس شخص کے پاس Gender Recognition Certificate (GRC) ہو، اسے اُس کی شناخت شدہ جنس کے مطابق تلاشی دینے یا لینے کی اجازت تھی۔ لیکن اب، عدالت کے فیصلے کے تناظر میں، ہم نے ہدایت دی ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد کی تلاشی اُن کی پیدائشی جنس کے مطابق لی جائے گی۔”پولیس جو برطانیہ کے ریلوے نظام اور متعلقہ ٹرانسپورٹ نظاموں کی حفاظت کا ذمہ دار ادارہ ہے، نے ستمبر 2024 میں اپنی پالیسی جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تلاشی صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے اگر افسر اور زیر حراست فرد کی جنس پیدائش یا GRC کے مطابق ایک ہو۔

"جامہ تلاشی” ایک ایسا عمل ہے جس میں زیر حراست فرد کے کپڑوں کی مکمل تلاشی لی جاتی ہے، جس میں کوٹ، دستانے، جوتے، اور سر ڈھانپنے والی اشیاء کے علاوہ بھی لباس اتروایا جاتا ہے، جس سے پچھلا حصہ ، جنسی اعضا اور خواتین کی چھاتی نمایاں ہو سکتی ہیں۔

ٹرانس پالیسی کے خلاف ‘سیکس میٹرز’ نامی مہم نے دسمبر میں ہائی کورٹ میں عدالتی نظرثانی کی درخواست دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی زیر حراست افراد کو جنسی ہراسانی اور جنسی حملے کے خطرے سے دوچار کرتی ہے، اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 3 کی خلاف ورزی ہے، جو "اذیت ناک، غیر انسانی یا تحقیر آمیز سلوک” سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ہ اس پالیسی سے خواتین اہلکاروں کو بھی خطرناک اور شرمندہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب اُن پر مردوں کی تلاشی لینے کے لیے دباؤ ڈالا جائے جو خود کو عورت ظاہر کرتے ہوں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس لارڈ ہوج نے کہا کہ اس فیصلے کو معاشرے کے کسی ایک طبقے کی دوسرے پر فتح نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ قانون کی درست تشریح ہے۔برطانوی وزیر، کارِن اسمیت، نے کہا کہ پبلک باڈیز کو اس فیصلے کے بعد اپنی رہنمائی پر نظرِ ثانی کا کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا”ہم چاہتے ہیں کہ ادارے جلدبازی میں ایسے بیانات نہ دیں جو عوام کو پریشان کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ سکون سے، احتیاط سے، اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں۔”

برطانوی مساوات و انسانی حقوق کمیشن کی چیئر، بیرونس کشور فالکنر نے کہا”اب اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ قانونی طور پر ‘عورت’ سے مراد پیدائشی حیاتیاتی عورت ہی ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل ہیلتھ سروس کو بھی اپنی 2019 کی پالیسی کو بدلنا پڑے گا، جس کے مطابق ٹرانسجینڈر مریضوں کو اُن کی شناخت کے مطابق ایک جنس والے وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔

ممتاز حیدر

ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں
Follow @MumtaazAwan

Latest from بین الاقوامی