امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک بڑا اور متنازع قدم اٹھاتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی کو غیرملکی طلبا کو داخلہ دینے سے روک دیا ہے، جس نے نہ صرف تعلیمی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، جمعرات کے روز امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے ہارورڈ یونیورسٹی کو باقاعدہ ایک مراسلے کے ذریعے آگاہ کیا کہ اس کی "اسٹوڈنٹ اینڈ وزیٹر ایکسچینج پروگرام (SEVP)” کی سرٹیفیکیشن منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس اقدام کے تحت یونیورسٹی اب نئے غیرملکی طلبا کو داخلہ نہیں دے سکے گی، جب کہ موجودہ زیرتعلیم غیرملکی طلبا کو دیگر اداروں میں منتقل ہونا ہوگا۔خط میں ہوم لینڈ سکیورٹی کی سربراہ کرسٹی نوم نے واضح کیا کہ یہ اقدام یونیورسٹی میں جاری تحقیقات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے، جو مبینہ طور پر داخلی سیکورٹی سے جڑے معاملات پر مبنی ہے۔ تاہم اس کی تفصیلات فی الحال منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے "غیرقانونی، غیر آئینی اور تعلیمی خودمختاری پر حملہ” قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدام صرف ہارورڈ ہی نہیں بلکہ پورے امریکی تعلیمی نظام اور ملک کی ساکھ کے لیے "سنگین نقصان” کا باعث بنے گا۔ہارورڈ نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہے، اور اپنے غیرملکی طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قانونی چارہ جوئی کرے گی۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے درمیان پہلے ہی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس سے قبل، مارچ میں ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ کی جانب سے مبینہ "یہود مخالف رویوں” پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے اربوں ڈالر کی وفاقی امداد روک دی تھی۔محکمہ تعلیم کے مطابق، حکومت 256 ملین ڈالرز کے موجودہ معاہدوں اور 8.7 ارب ڈالرز کی آئندہ گرانٹس کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔