امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں ایک جانب بھارت کے ساتھ تعلقات کو مسلسل دھچکے دیے ہیں، وہیں دوسری جانب پاکستان کے ساتھ روابط میں غیر معمولی تیزی دکھائی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں یہ ’’ری بیلنسنگ‘‘ وقتی حکمت عملی ہے یا طویل المدتی پالیسی، اس پر ابھی واضح نہیں کہا جا سکتا۔
ٹرمپ نے بھارت کو تجارتی محاذ پر سخت نشانہ بنایا ہے۔ امریکی زرعی اور ڈیری لابیوں کے دباؤ پر وہ بھارت کی سرخ لکیریں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس میں کسی اصولی موقف کے بجائے امریکی طاقت کا مظاہرہ شامل ہے۔ یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا سے یک طرفہ رعایتیں حاصل کرنے کے بعد ٹرمپ اسی نوعیت کی کامیابی بھارت کے خلاف دکھانا چاہتے ہیں، مگر نئی دہلی اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔روس سے رعایتی نرخوں پر تیل کی خریداری روکنے کے لیے بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جسے صرف تجارتی نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار بھی قرار دیا جا رہا ہے۔امریکہ نے ایران کی بندرگاہ چابہار پر بھی پابندیاں لگا دی ہیں، جہاں بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام نہ صرف بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بالواسطہ طور پر چین اور پاکستان کے گوادر پورٹ کے حق میں جا رہا ہے۔ یہی گوادر ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کا اہم حصہ ہے جو چین کو خلیجی خطے تک رسائی دیتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹرمپ بھارت سے اس وقت ناخوش ہوئے جب اس نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے بعد جنگ بندی کا سہرا انہیں دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے نہ صرف ٹرمپ کو اس جنگ بندی کا کریڈٹ دیا بلکہ باضابطہ طور پر انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد بھی کر دیا۔ اس سے ٹرمپ کا جھکاؤ مزید اسلام آباد کی جانب بڑھ گیا۔ٹرمپ بارہا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں، جسے بھارت مسترد کرتا آیا ہے۔ تاہم یہ بیانات پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی امریکی کوشش کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔امریکی صدر کی نئی پالیسی میں سعودی عرب بھی شامل ہے، جہاں پاکستان کو سکیورٹی پارٹنر بنانے کے لیے ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے پیچھے امریکی رضامندی لازمی شامل ہے کیونکہ سعودی سلامتی ہمیشہ امریکی ہتھیاروں اور اڈوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی صلاحیتیں سعودی فنڈنگ سے مزید بڑھ سکتی ہیں۔
پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں نجی دعوت دینا اور امریکی جنرل کا پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کوششوں کو سراہنا اسی پالیسی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو ’’ایٹمی تحفظ‘‘ کی پیشکش پر بھی واشنگٹن نے خاموشی اختیار کی ہے۔معاشی محاذ پر پاکستان نے بلوچستان میں رئیراَرتھ (Rare Earths) دھاتوں کی کان کنی کے حقوق امریکا کو دینے کی پیشکش کی ہے۔ اگرچہ یہ ایک طویل اور پیچیدہ منصوبہ ہے، لیکن امریکی کمپنی کے ساتھ ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’پاکستان کرپٹو کونسل‘‘ اور وائٹ ہاؤس کے قریبی کاروباری حلقوں کے درمیان کرپٹو کرنسی کے معاملات بھی زیرِ بحث ہیں۔
ماہرین کے مطابق ٹرمپ نے سیاسی، عسکری اور معاشی کارڈز کو دوبارہ ترتیب دے کر جنوبی ایشیا میں ایک نئی سفارتی بساط بچھائی ہے، جس سے بھارت کے مفادات کو زبردست چیلنج لاحق ہے جبکہ پاکستان کو ایک نئی بین الاقوامی اہمیت مل رہی ہے۔








