ٹرمپ پر آئین سے انحراف کا الزام ، الٹی گنتی شروع،سنیے مبشر لقمان کی زبانی اہم انکشافات

0
38

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ امریکہ میں نسلی امتیاز اور تشدد کے خلاف تحریک شروع ہوئی جو اب زور پکڑ چکی ہے اور اب حالات یہاں‌ تک پہنچ چکے ہیں کہ اپوزیشن کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی کے لوگ بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول جن کا تعلق ری پبنلکن پارٹی سے ہے نے مظاہروں کے بعد ٹرمپ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ آئین سے انحراف کر رہے ہیں،کولن پاؤل کوئی عام شہری نہیں ہیں وہ وزیر خارجہ رہے ہیں،امریکن آرمی کے سربراہ بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی ان افراد میں شامل ہو گئے ہیں جو مظاہروں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے رویئے، اور انکے فوج بھیجنے کی دھمکی پر نہ صرف مذمت کر رہے ہیں بلکہ تنقید کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کولن پاؤل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انکو ووٹ نہیں دیں گے،سی این این کو ایک انٹرویو میں انکا کہنا تھا کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا اور جھوٹ بولتے ہیں ،ایسی باتیں کرتے ہیں کہ لوگ ان سے جواب طلبی نہیں کرتے،کول پاؤل نے امریکی صدر کے بیان کو امریکی ڈیمو کریسی کے لئے خطرہ قرار دیا

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کول پاؤل نے اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا کہ میں یقینی طور پر ٹرمپ کی حمایت نہیں کر سکتا،میرے سماجی اور سیاسی خیالات بائیڈن کے بہت قریب ہیں میں نے انکے ساتھ 40 سال کام کیا،وہ اب صدارتی امیدوار ہیں، انکو ووٹ دیں گے،کولن پاؤل کو ایک اعتدال پسند ری پنلکن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، 2016 کے انتخابات میں بھی انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا تھا

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اسکے علاوہ امریکن آرمی کے ان اعلیٰ اہلکاروں کی بھی انکو حمایت ہے جنہوں نے ٹرمپ پر نقطہ چینی کی تھی، ٹرمپ بھی خاموش رہنے والی چیز نہیں ہیں، انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کول پاؤل اتنے قابل نہیں ہیں جتنا سمجھا جاتے ہیں،ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ کولن پاؤل ایک سخت آدمی ہیں،اور مشرق وسطیٰ میں جنگ میں پھنسانے کے پوری طرح کے ذمہ دار ہیں ،ٹرمپ نے 1990 سے 1993 تک ہونے والی خلیجی جنگ اور 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی جانب اشارے دیئے

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ پر تنقید ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب نسل پرستی کے خلاف نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں مظاہرے جا ری ہیں،امریکہ بھر میں حفاظتی انتظامات میں نرمی کی جا رہی ہے کیونکہ کشیدگی بھی کم ہو گئی ہے، نیویارک میں ایک ہفتہ سے جاری کرفیو ختم کر دیا گیا ہے،لیکن ٹرمپ پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے، سابق صدر اوباما، سابق وزیر دفاع و دیگر بھی تنقید کرنے والوں میں شامل ہیں

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں امریکی انتخابات مین ڈیموکریٹک کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بھی ٹرمپ پر تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے تشدد پر اکسانے، نفرت کی آگ بھڑکانے اور ایک دوسرے سے دور کرنے کے لئے اپنے الفاظ کا سنگدلی سے استعمال کیا،سابق وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے ٹویٹ کرنا بند کر دیں،اور امریکی عوام سے گفتگو کریں،

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ فرانس تک مظاہرے ہو رہے ہیں، جرمنی میں بھی احتجاج ہو رہا ہے،مائیکل جون نے بھی اس تحریک کو سپورٹ کرنے اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے لئے 100 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے،مائیکل جون کا کہنا ہے کہ نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کرنے والے گروپس کو 10 کروڑ ڈالر کا عطیہ دیں گے،اور اس رقم کے ذریعے نسل پرستی سے نمٹنے میں مدد کی جائے گی،میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں‌جو ہمارے ملک میں رنگ، نسل پرستی کے خلاف کھڑے ہیں اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں،بہت برداشت کر لیا

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر کے عہدے سے استعفیٰ کے بعد اب نیو یارک ٹائمز کے ایک ایڈیٹر نے ری پبلکن سینیٹر کے کالم کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے جس میں مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے فوج بھیجنے کی حمایت کی گئی تھی، سابق صدر ٹرمپ کی دھمکی کی حمایت پر آرٹیکل شائع کرنے پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا،پہلے تو نیو یارک ٹائمز نے اس مضمون کی حمایت کی تھی،2016 سے اخبار کے ایک ایڈیٹر نے قبول کر لیا کہ آرٹیکل شائع ہونے سے قبل انہوں نے اسے پڑھ لیا تھا لیکن بعد میں ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ آرٹیکل ان کے معیار پر پورا نہیں اترتا اخبار کی ویب سائٹ پر آرٹیکل کے خلاف تقریبا 800 کے قریب کارکنان نے دستخط کئے اور کہا کہ آرٹیکل پر جو کچھ لکھا گیا وہ گمراہ کن ہے،مخالفت کے اظہار میں چند صحافی ڈیوٹی پر ہی نہیں گئے،سینیٹر نے فوج کی طاقت کے استعمال کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ ایک گروپ کے خلاف ہے،اور آرٹیکل ایسے وقت میں شائع ہوا جب امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے، اس آرٹیکل میں مظاہرین کو فسادی کہا گیا

مبشرلقمان کا مزید کہنا تھا کہ نیو یارک ٹائمز کے چیئرمین نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ہمیں ایڈیٹوریل میں ایک رکاوٹ کا سامنا رہا،اور یہ حالیہ چند برسوں سے مختلف تجربہ ہے،ایڈیٹنگ میں غلطیاں کی گئیں اور ان الزامات کی تصدیق نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بڑی سطح پر سوال اٹھ گئے،سینیٹر کا وہ بیان جس میں کہا گیا کہ چند شہروں میں ہونے والے تشدد کا نقصان پولیس کو بھگتنا پڑا بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا جس سے چیلنج کیا جانا چاہئے تھا اور آرٹیکل کی ہیڈ لائن جسے سینیٹر نے خود نہیں لکھا اس کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے تھا،

ان تمام رد عمل کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ مین تحریک اب زور پکڑ چکی ہے،اور اب یہ مجبور کر دے گی کہ انسانوں کو نسلی امتیاز، تشدد سے چھٹکارا مل جائے،اللہ کرے ایسا ہی ہو اور یہ ہماری زندگیوں مین ہو کہ ہر چیز سے اوپر انسان کا کردار اور افکار ہو،

وبا، ایک ڈرامہ نہیں، پوری فلم ہے، سنیے سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان کی زبانی اہم انکشافات

Leave a reply