توبہ کا قانون۔ تحریر: محمد اسعد لعل

0
38

اس دنیا میں انسان کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور ہر وقت اُس کا امتحان ہو رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب آپ آزمائش سے گزر رہے ہوتے ہیں تو غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور گناہ بھی سرزد ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کا ایک قانون دیا ہے۔ جب کوئی شخص  کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے تو فوراً اپنے رب کی طرف پلٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

عام طور پر توبہ اور استغفار ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، اصل میں یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ توبہ کا مطلب ہے لوٹنا، یعنی مجھ سے ایک غلطی کا ارتکاب ہوا ہے، ایک گناہ سرزد ہوا ہے، میں اس کو چھوڑ کر صحیح راستے کی طرف آتا ہوں تو اس کو توبہ کہا جاتا ہے۔عربی زبان میں اس کا مطلب لوٹنے کا ہے۔ یعنی آپ نے ایک گناہ کا کام کیا اور اس کو چھوڑ دیا، اپنی اصلاح کا فیصلہ کر لیا اور اب آپ وہ کام نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی شراب پیتا تھا اس نے کہا کہ میں آج کے بعد شراب نہیں پیوں گا، جھوٹ بولتا تھا اس نے کہا کہ آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوں گا  تو یہ توبہ ہے۔

استغفار کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہنا، بخشش کی دعا کرنا۔ عام طور پر توبہ اور استغفار ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ توبہ و استغفار اس لیے بھی ایک ساتھ بولے جاتے ہیں کہ جس وقت آدمی کسی گناہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو یہا ں ایک دوسری چیز یہ بھی ہے کہ اس نے گناہ کیا تو تھا، چنانچہ جو کچھ کیا ہے اس پر مغفرت چاہے گا، اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرے گا۔ اس لیے یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ بول لیے جاتے ہیں پر دونوں میں فرق ہے۔ دونوں الفاظ کو ملا کر ہم توبہ و استغفار کہہ رہے ہوتے ہیں، گویا دونوں باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ گناہ چھوڑ بھی دو اور اللہ سے مغفرت بھی طلب کرو۔

صرف توبہ کا لفظ بول لینا توبہ نہیں ہے۔ توبہ کی حقیقت یہ ہےکہ آپ نے گناہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ اگر یہ کہہ دیں کہ میں نے توبہ کی ہے اور اس کا معنی یہ لیں کہ  میں نے توبہ کا لفظ بول دیا ہے تو یہ توبہ نہیں ہے۔

اگر توبہ کا مطلب گناہ کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ کو "تواب” کہنے سے کیا مراد ہو گا؟
عربی زبان میں الفاظ اپنے فاعل کے لحاظ سے اپنے معنی تبدیل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اللہ تعالیٰ کے لیے شاکر کا لفظ استعمال کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جو آپ کے جذبہِ شکر گزاری کو قبول کرتا ہے، اور جب بندے کے لیے شاکر کا لفظ استعمال کریں گے تو اس کا مطلب وہ جو شکر ادا کرتا ہے۔
اسی طرح یہاں "تواب ” سے مرا د ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و برکت کے ساتھ آپ کی طرف آتا ہے، یعنی وہ جو آپ کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔

قرآن مجید نے توبہ کا قانون بھی بتا دیا ہے۔ یعنی جب آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو آپ سب سے پہلے اس گناہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کریں گے پھر یہ کہ آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کا فیصلہ کریں گے اور اپنے ایمان کی تجدید کریں گے۔ جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے تو حقیقت میں وہ ایمان سے خالی ہو جاتا ہے، کیونکہ ایمان کے ساتھ گناہ کا ارتکاب نہیں ہو سکتا۔ آپﷺ نے اس لیے فرمایا کہ جب کوئی بدکاری کرتا ہے یا چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ قانونی لحاظ سے تو وہ مسلمان ہی شمار ہو گا لیکن وہ حقیقتِ ایمان سے محروم ہو چکا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایمان کی حقیقت کا شعور ہے تب تک آپ اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر گناہ نہیں کر سکتے۔

توبہ کے قانون میں ہے کہ جب کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً اس پر توبہ کی جائے۔ گناہ کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو انسان پر طاری ہو جاتی ہے، بالخصوص جنس سے متعلق جو گناہ ہیں ان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ باقی گناہوں میں بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک پردہ پڑ جاتا ہے اور اس میں آدمی کسی گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فوراً توبہ کر لی، یعنی جیسے ہی شعور بیدار ہوا، غفلت ختم ہوئی تو آپ بیدار ہو گئے اور آپ نے کہا کہ نہیں یہ گناہ میں آئندہ نہیں کروں گا، یہ وہ چیز ہے جس کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے کہ میں اس رجوع کو قبول کر لوں گا۔

یہ قانون ان گناہوں کے بارے میں ہے جن کا تعلق بندے اور اللہ کے درمیان ہے، بعض ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی دوسرہ بندہ بھی متاثر ہوتا ہے تو ایسی صورتحال میں توبہ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟
اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ انشاءاللہ بہت جلد باغی ٹی وی کی ویب سائٹ پر میرے اگلے کالم میں آپ اس بارے میں  پڑھ سکیں گے۔ تب تک کے لیے اللہ نگہبان۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Leave a reply