توبہ کا قانون (قسط دوم) تحریر: محمد اسعد لعل

0
30

توبہ کے قانون میں ہے کہ جب آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے فوراً بعد توبہ کر لیں، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اللہ سے اپنے گناہ کی معافی طلب کریں۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے خود پر لازم کر رکھا ہے کہ وہ اپنے بندے کے اس رجوع کو قبول کر لے گا۔
بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں کوئی دوسرا بندہ بھی متاثر ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں صرف زبان کی حد تک یا ارادے کی حد تک توبہ کر نا کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کی تلافی کریں اور اس شخص سے معافی مانگیں۔ اگر آپ نے اس کا کوئی حق مار لیا ہے تو اس کو ادا کرنا ہو گا۔ اسی کو قرآن مجید اصلاح کرنے سے تعبیر کرتا ہے۔
اصلاح کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ آئندہ کے لیے آپ وہ کام نہیں کریں گے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو آپ نے غلطی کی ہے اس کی تلافی کریں گے۔ مثال کے طور پر کسی شخص نے کسی خاتون کے مکان پر قبضہ کر لیا ہے، اب وہ شخص سوچتا ہے کہ اس نے یہ غلط کیا ہے اور وہ اپنے اس گناہ پر توبہ کر لیتا ہے لیکن مکان نہیں چھوڑتا۔۔۔۔ تو یہ توبہ نہیں ہوئی۔اُسے چاہیے کہ وہ توبہ کے ساتھ ساتھ مکان بھی خاتون کے حوالے کر کے اپنے گناہ کی تلافی کرے۔
بعض ناقابلِ تلافی گناہ ہوتے ہیں جس میں سنگین صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ناقابلِ تلافی گناہ کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کو قتل کر دیا، وہ آدمی تو اب دنیا میں موجود نہیں رہا۔ اب اس سے جو کچھ معاملہ ہونا ہے وہ آخرت میں جا کر ہو گا۔ اس صورتحال میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آخرت میں معاف کرتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ اُس وقت تو آپ کے پاس لینے اور دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہو گا، تو اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟
اس چیز کو حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ پھر اُس کے کہنے پر آپ کو اپنی نیکیاں اس کے حصہ میں ڈالنی ہوں گی اور اس کی بُرائیاں اپنے کھاتے ہیں لینی پڑیں گی۔
اسی طریقے سے اگر آپ دنیا میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کرتے ہیں، کوئی ظلم کرتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ازالے کی کوئی صورت موجود نہیں رہی ہے تو پھر آپ اس کے لیے استغفار کریں، اس کے اہل و عیال، اس کے رشتے دار اگر دنیا میں موجود ہیں تو ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کریں۔ یعنی ازالے کی کوئی نہ کوئی صورت آپ کو اختیار کرنی ہے۔ اگر اس کا بھی موقع نہ ملا تو یہ طے ہے کہ آخرت میں ہر حال میں اس شخص کے ساتھ آپ کا معاملہ پڑے گا۔
گناہوں کی دونوں صورتوں میں، ایک وہ جو خدا کی بارگاہ میں ہم سے سرزد ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو بندوں کے حقوق سے متعلق ہیں، تو خدا کی بارگاہ میں ہونے والے گناہوں سے بھی ہمیں ڈرنا چاہیے اس لیے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پھر بھی غفور و رحیم ہے پر بندوں کے معاملے میں آپ کیا توقع کر سکتے ہیں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا رویہ وہاں کیا ہو گا، اس لیے اس معاملے میں اور بھی زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔
کوئی شخص اگر بددیانتی کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، کم تولتا ہے یا ملاوٹ کرتا ہے تو وہ اصل میں حقوق العباد کے متعلق گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ خدا کا بھی مجرم ہے اور اس بندے کا بھی مجرم ہے۔ ایک وہ خیانتیں ہیں جو فرد کی حیثیت سے ہوتی ہیں اور ایک وہ ہیں جو ریاست کی سطح پر ہوتی ہیں تو اس صورتحال میں خیانت کرنے والا پوری قوم کا مجرم بن جاتا ہے۔ اگر کسی نے قومی خزانے میں خیانت کی تو وہ پوری قوم کا جوابدہ ہو گا، پوری کی پوری قوم قیامت کے دن اس سے حساب لینے کا حق رکھتی ہے۔ اس وجہ سے حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہے۔ اس میں توبہ بھی کرنی ہو گی، گناہ کو چھوڑنا بھی ہو گا اور اس کی تلافی بھی کرنی ہو گی۔
آپﷺ نے صحابہ کرام کو ایک روایت سنائی تھی، جس میں ایک شخص نے سو قتل کر دیے تھے۔ ظاہر ہے وہ جو سو مقتولین تھے ان سے اُس نے معافی نہیں مانگی تھی لیکن  اس نے اللہ سے سچے دل سے معافی مانگی تواللہ نے اسے معاف کر دیا تھا۔
اس روایت میں بھی خدا کی معافی کی بات کی گئی ہے، یہ یاد رہے کہ بندے کی طرف سے خدا کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔ قتل کا جرم ایک ایسا جرم ہے جس میں انسان خدا کا بھی مجرم ٹھہرتا ہے، معاشرے کا بھی اور مقتول کا بھی مجرم ہوتا ہے۔ یہ معمولی جرم نہیں ہے اس لیے اس پر ابدی جہنم کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کو ایک آسان سی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ہمارے معاشرے میں قتل اتنا عام ہو گیا ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ کیوں مر رہا ہے اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ وہ کیوں مار رہا ہے۔
یہ بالکل وہی صورتحال ہے جو ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ آخری زمانے میں ایک فتنہ پیدا ہو جائے گا  تو صحابہ کرام نے پوچھا وہ کیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کا قتل جس میں نہ مارنے والے کو پتا ہو گا اور نہ مرنے والے کو پتا ہو گا۔
ہمیں اب معلوم ہے کہ اگر ہم سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو ہمیں  توبہ کرنی چاہیے، اس بارے میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا توبہ کرنے کے لیے بھی کوئی مہلت دی گئی ہے؟
اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہیں اور اللہ نے اپنے بندوں کو موت تک کی مہلت دی ہے کہ آپ کسی بھی وقت اپنے گناہوں کی بخشش کی دعا کر سکتے ہیں، لیکن اگر فوراً آپ نے اپنے گناہ کی توبہ کر لی ہے، اپنی اصلاح کا فیصلہ کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لی ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول کر لے گا، اور اگر آپ نے توبہ کرنے میں تاخیر کی ہے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اُسی آیات میں آگے فرمایا ہے کہ اگر موت تک موخر کر دیا ہے تو پھر اللہ توبہ قبول نہیں کریں گے۔ یعنی سقراطِ موت طاری ہو گئی ہے، آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ اب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں، اس وقت اگر توبہ توبہ کا ورد شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ میں یہ توبہ قبول نہیں کروں گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درمیان کا عرصہ ہے، یعنی  فوراً توبہ بھی نہیں کی اور موت تک بھی موخر نہیں کیا، لیکن درمیان میں کسی وقت اللہ نے توفیق دی اور رجوع کر لیا تو اس میں خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ یہ خاموشی خوف بھی پیدا کرتی ہے اور یہ خاموشی امید بھی پیدا کرتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول فرمائیں اور تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف کریں۔آمین
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Leave a reply