ترکیہ کی شام میں کرد فورسز کے ٹھکانوں پر بمباری،12 افراد ہلاک

0
37

انقرہ: ترکیہ نے استنبول بم دھماکے میں کرد پارٹی کے ملوث ہونے پر شام میں ان کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی، برطانیہ میں قائم مانیٹرنگ گروپ کے مطابق بمباری میں کم از کم 6 ممبران سمیت 12 حکومتی حامیوں کو ہلاک کر دیا ہے-

باغی ٹی وی : عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ترکیہ کے وزیر دفاع نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ سب کچھ ملبہ بنانے کی گھڑی آچکی ہے اس کے علاوہ کسی گروہ کا نام لیے بغیر انتہائی سخت انداز میں گالی کی زبان استعمال کرتے ہو ئے کہا کہ ان کو اپنے حملوں کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

سعودی عرب نےانسداد وبائی امراض کیلئےعالمی فنڈ میں 5 کروڑ ڈالرعطیہ کرنےکا اعلان کیا

ترک وزیر دفاع نے اس ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں ایک لڑاکا طیارے کو اُڑان بھرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اس کے بعد اپنی اگلی ٹوئٹس میں انہوں نے بتایا کہ ٹھیک ٹھیک نشانے لے کر دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کردیئے اس کے ساتھ ایک ویڈیو بھی ٹویٹ کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ہدف کو تلاش کی جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی دھماکے کی آواز آتی ہے۔

کردش فورسز کا بتانا ہے کہ ترکیہ کے حملے کا ہدف شمال مشرقی شام میں کوبین کا علاقہ تھا۔ واضح رہے اس کوبین شہر کو ہی داعش نے قبضے میں لیا تھا۔

شمالی نائیجریا کے گاؤں پر مسلح افراد کا حملہ،12 افراد ہلاک

امریکی اتحادی فوج ایس ڈی ایف کے چیف کمانڈر مظلوم عابدی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ترکیہ کی بمبار ی سے ہمارے محفوظ علاقوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے حلب، حسکیہ میں بمباری کی گئی ہے۔

شامی آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے کہا ہے کہ گنجان آباد علاقے کو ہدف بنایا گیا ہے، نیز ان علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جن میں شامی رجیم کی فورسز تعینات ہیں۔

ترکیہ کے فوجی ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حملے میں کرد پارٹی کے اسلحہ خانے، خندقیں، فیکٹری، تربیت گاہ اور کمین گاہوں کو مٹی کا ڈھیر بنادیا گیا۔ یہ کارروائی استنبول بم دھماکے کے جواب میں کی گئی۔

ترکیہ کی جانب سے بمباری میں ہلاکتوں سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا لیکن شام میں جنگ کو مانیٹر کرنے والے برطانوی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکیہ کے حملے میں 12 اہلکار مارے گئے جن میں کرد جنگجو اور شامی فوجی بھی شامل ہیں۔

کویت میں 2017 کے بعد پہلی مرتبہ ایک پاکستانی اور 2 خواتین سمیت سات افراد کو پھانسی

Leave a reply