اوچ شریف باغی ٹی وی ( نامہ نگار حبیب خان )محمد بن قاسم کے دور کی یادگار اوچ موغلہ کی تاریخی مسجد اپنی آخری سانسیں لینے گی،کیا یہ عظیم ورثہ حکومتی عدم توجہی کی نذر ہو جائے گا؟ 74 ہجری میں تعمیر کی گئی یہ قدیم مسجد، جو فنِ تعمیر کا شاندار نمونہ اور تاریخ کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہے، آج زبوں حالی کا شکار ہے۔ کیا اس ورثے کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات کیے جائیں گے؟
یہ تاریخی مسجد جو مٹی سے بنی ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہو چکی ہے۔ اس کی دیواریں گرنے کے قریب ہیں اور اردگرد کی نئی تعمیرات اور زمین کی بھرائی اس قدیم ورثے کو مکمل طور پر دفن کرنے کے درپے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا آنے والی نسلیں اس عظیم تاریخ کے آثار دیکھ پائیں گی؟
مقامی روایات کے مطابق یہ مسجد محمد بن قاسم کی فتوحات کے دور کی ایک نشانی ہے، لیکن آج اس کی بحالی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آ رہی۔ کیا آثارِ قدیمہ کے ماہرین، مقامی انتظامیہ یا متعلقہ حکومتی ادارے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا کوئی ایسا اقدام کیا جائے گا جس سے یہ ورثہ مزید تباہ ہونے سے بچ سکے؟
یہ مسجد نہ صرف ایک قدیم عبادت گاہ بلکہ اسلامی تاریخ اور ثقافت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق اس کے کھنڈرات بھنبھور اور الور کے قدیم آثار سے مماثلت رکھتے ہیں جو اس کی تاریخی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی توایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور شناخت کھو دیں گے
یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ اس تاریخی مسجد کی بحالی اور تحفظ کے لیے کون اقدامات کرے گا؟ کیا محکمہ آثارِ قدیمہ یا حکومت کوئی عملی قدم اٹھائے گی یا پھر یہ مسجد بھی دیگر تاریخی ورثوں کی طرح ماضی کا ایک دھندلا عکس بن کر مٹی میں دفن ہوجائے گی؟
مقامی شہریوں، سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے اس ثقافتی اور مذہبی ورثے کی بحالی کے لیے حکومت سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ تاریخی علامت آنے والی نسلوں کو ہمارے شاندار ماضی کی گواہی دے سکے۔