لائیوٹی وی پریوکرین جنگ کےخلاف احتجاج کرنیوالی روسی صحافی کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟

0
135

روسی صحافی ایڈیٹر مرینا اوفسیانیکوفا، جنہوں نے براہ راست سرکاری ٹی وی پر جنگ مخالف مظاہرے کیے تھے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے-

باغی ٹی وی : روسی حکومت کے زیر کنٹرول ایک نیوز چینل پر براہ راست خبریں نشر ہونے والے دوران ایک خاتون صحافی جنگ مخالف بینر لے کر اسکرین کے سامنے آگئیں تھیں جن کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے-

ایڈیٹر مرینا اوفسیانیکوفا کو ماسکو کی ایک عدالت نے منگل کے روز ایک ویڈیو بیان کے لیے ایک انتظامی جرم کا مجرم قرار دیا تھا جس میں روسیوں سے احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یوکرین پر حملہ: روسی چینل پر براہ راست خبروں کے دوران خاتون ملازمہ کا انوکھا…

صحافی خاتون نے عدالتی سماعت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ حکام نے ان سے 14 گھنٹے سے زائد عرصے تک پوچھ گچھ کی اور انہیں قانونی مشیر کی اجازت نہیں دی گئی۔


صحافی نے بتایا کہ وہ واقعی میری زندگی کے بہت مشکل دن تھے میں نے دو دن بغیر نیند کے گزارے پوچھ گچھ 14 گھنٹے سے زیادہ جاری رہی، مجھے اپنے رشتہ داروں یا دوستوں سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، مجھے کوئی قانونی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ اس لیے میں کافی مشکل میں ہوں-

واضح رہے کہ روسی ٹی وی ’چینل ون‘ پر شام کی خبریں پڑھنے کے دوران چینل کی خاتون ایڈیٹر مرینا اوفسیانیکوفا جنگ مخالف بینر لے کر آگئیں تھیں اور ساتھ ہی روسی زبان میں جنگ مخالف نعرے بھی لگائے تاکہ دنیا بھر کے لوگ ان کے احتجاج کو بھی دیکھ سکیں۔

خاتون ایڈیٹر کی جانب سے تھامے گئے بینر پر انگریزی میں ’جنگ نہیں‘ کا جملہ لکھا ہوا تھا جب کہ روسی زبان میں بھی جنگ مخالف نعرے درج تھے ’جنگ ختم کریں، پروپیگنڈہ پر یقین مت کریں، آپ سے جھوٹ بولا جا رہا ہے‘۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں پروگرام کی نشریات کے دوراں احتجاج کرنے والی خاتون ’ جنگ بند کریں اور جنگ نہیں چاہیے‘ جیسے نعرے لگاتی سنائی دیں تھیں جبکہ احتجاج کرنے والی خاتون کی جانب سے نعرے لگائے جانے کے وقت نیوز کاسٹر بھی اپنی آواز کو تیز کردیا تھا تاکہ احجاج کرنے والی خاتون کی آواز سمجھ نہ آسکے۔

یورپی یونین نے یوکرینی پناہ گزینوں کیلئے دروازے کھول دئیے

اسی حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی” نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بعد ازاں نشریات کے دوران جنگ مخالف بینر لے کر آنے اور نعرے لگانے والی خاتون صحافی کو گرفتار کرلیا گیا، جن پر اب فوج کی بدنامی کرنے جیسے قوانین کے تحت قانونی کارروائی کیے جانے کا امکان ہے۔

بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ٹی وی چینل کی نشریات کے دوراں احتجاج کرنے سے قبل مذکورہ خاتون صحافی نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے یوکرین میں جاری جنگی حالات کو ’جرم‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک شرم کی بات ہے کہ وہ کریملن کے پروپیگنڈہ کا حصہ بن کر کام رہی ہیں۔

انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا تھا کہ انہیں شرم آتی ہے کہ انہوں نے خود کو ٹیلی وژن اسکرین سے جھوٹ بولنے کی اجازت دی۔

خاتون صحافی نے ویڈیو پیغام میں روسی شہریوں کو جنگ کے خلاف احتجاج کرنے کی دعوت دی تھی اور کہا کہ صرف وہ ہی اس ’پاگل پن‘ کو روک سکتے ہیں۔

خاتون کی شناخت سامنے آنے کے بعد انہیں فیس بک پیج سے روسی اور انگریزی زبان میں لاتعداد کمینٹس وصول ہوئے جس میں لوگ ان کے عمل کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تھا-

امریکہ کی یوکرین کیلئے 13 ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد کی منظوری

یاد رہے کہ عام طور پر روس میں میڈیا چینلز حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور بڑے چینلز پر آزادانہ تبصرے نہ ہونے کے برابر ہیں علاوہ ازیں روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد نئے قوانین متعارف ہونے کے بعد ٹٰی وی چینلز کو مزید پابند کیا گیا ہے۔

رواں ماہ نافذ کیے گئے نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ روسی فوج کے عمل کو قبضہ کہنا اور اس متعلق غلط خبریں نشر کرنا غیر قانونی عمل ہوگا روسی میڈیا جنگ کو ایک ’اہم فوجی آپریشن‘ قرار دے رہا ہے جبکہ یوکرین کو حملہ آور کے طور پر دکھا رہا ہے۔

روسی حکام کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے قوانین کے بعد آزاد ٹی وی چینلز جن میں ’ایکو آف ماسکو‘ نامی ریڈیو چینل اور ’ٹی وی رین‘ نامی ایک آنلائن ٹی وی چینل شامل ہیں، انہوں نے بھی جنگ سے متعلق خبریں نشر کرنا بند کردی ہیں۔

تاہم ’نووایا گزیٹا‘ کے نام سے شائع ہونے والا ایک اخبار نئے قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر جنگ سے متعلق خبریں شائع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اسی طرح روسی حکومت نے غیر ملکی میڈیا ہاؤسز جن میں بی بی سی جیسے ادارے بھی شامل ہیں، انہیں بھی معلومات تک محدود رسائی دے رکھی ہے، علاوہ ازیں متعدد سوشل میڈیا سائٹس اور ایپلی کیشنز کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

یوکرین میں ایک اور امریکی صحافی ہلاک،برطانوی صحافی زخمی

Leave a reply