کرونا وائرس،علماء اور حکمرانوں کے پھڈے. تحریر: انجینئر ذیشان وارث

0
62

علماء اور حکمرانوں کے پھڈے

دنیا بھر میں کرونا نے خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے۔ طبی ماہرین نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے جو طریقے بتائے ہیں، ان میں سب سے موثر آئسولیشن یعنی افراد کا ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنا بتایا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر کسی ایک بندے کو بیماری ہے وہ یا تو اپنا علاج کروالے گا یا شہادت سے سرفراز ہو جائے گا۔ کسی دوسرے میں بیماری منتقل نہیں کرے گا۔

اب اس بات پر حکمرانوں نے کہا کہ عوام میل ملاپ کم کر دیں۔ میل ملاپ کی جگہوں میں مساجد بھی آتی ہیں۔ اب علما کو لگا کہ اگر دو چار ہفتے کیلئے مساجد بند ہو گئیں تو شاید اسلام کا وجود مٹ جائے گا۔ لہٰزا کچھ علما نے اس فیصلے کا بائیکاٹ فرمادیا۔ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی ہے جس میں مولوی صاحب فرمارہے آیسولیشن اور سوشل ڈسٹینسنگ دی پین سی سری۔ اور یہ کہ "دوری نا رہے کوئی آج اتنے قریب آؤ”۔ کندھے سے کندھا اور گٹے سے گٹا ملاؤ۔

علماء اور حکمرانوں کے یہ پھڈے آج کے نہیں ہیں شروع سے چلے آرہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ علماء کا کام صرف فتوٰی لگانا ہوتا ہے۔ زمینی حقائق یا فتوے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے حکمرانوں کو ہی نمٹنا پڑتا ہے۔ تاریخ اسلام میں بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ علماء اور حکمرانوں میں ٹھن گئی۔ حجاج بن یوسف کی سختی مشہور ہوئی۔ اس کے پیچھے وجہ یہ تھی ہ وہ ہر بات کا جواب تلوار سے دیتا تھا۔ اس کے زیرِنظر واحد مقصد سلطنت کا استحکام تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت محمد بن قاسم نے جب ہندوستان کے کچھ علاقے فتح کیے تو اس نے کچھ ایسے انتظامی فیصلے کیے جو کہ اگر علماء کی نظر سے دیکھے جائیں تو کالعدم ہوجائیں۔ مثلا کچھ جگہوں پہ جزیہ معاف کرنا یا غیرمسلموں کو عہدے دینا۔ دلی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تو علماء کو خصوصی مقام دیا گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں وہاں علماء نے حکمرانوں کے فیصلوں پر انگلی اٹھانا شروع کردی۔ شمس الدین التتمش کے دور میں حالات اتنے کشیدہ ہوئے کہ اس کے وزیراعظم نے علماء کو اکٹھا کرکے سمجھایا کہ حکومت کو بھی اسلام کا درد ہے لہٰزا آپ ہر کام میں مداخلت نا فرمائیں۔

تاریخی طور پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کی کامیاب سلطنتیں قائم ہوئیں وہاں حکمرانوں نے علماء کو انتظامی معاملات سے علیحدہ رکھا۔ جہاں جہاں علماء کو انتظامی معاملات میں مداخلت کا موقع ملا، اکثروبیشتر خرابی ہی ہوئی۔ مشہور مؤرخ ایس ایم اکرام نے ہندوستانی تاریخ پہ لکھی گئی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اورنگ زیب جب بادشاہ بنا تو اس نے علماء کے کہنے پہ اسی (80) کے قریب ٹیکس معاف کردیے اور جزیہ و زکات باقی رکھے۔ انتظامی لحاظ سے یہ فیصلہ دو دھاری تلوار ثابت ہوا کیونکہ اس سے ریاستی فنڈز بھی کم ہوئے اور ہندو رعایا میں بہت زیادہ بے چینی اور بغاوت پھیلی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ تنقید کرنے والے ایس ایم اکرام اورنگ زیب کے ممدوحین میں سے ہیں اور کچھ مؤرخین نے تو ان پر اورنگ زیب کا اپالوجسٹ ہونے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں بھٹو نے علماء کے بہت سارے مطالبات کوتسلیم کیا۔ ختم نبوت ترمیم، شراب اور جوئے پر پابندی، جمعے کی چھٹی اور اسلامی کانفرنس کا انعقاد۔ مگر علما کے مطالبات ھل من مزید کے تحت بڑھتے گئے یہاں تک کے بھٹو پھانسی پہ جھول گیا۔ اس کے بعد ضاء نے اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا تو قسما قسم کے جہادی برانڈز متعارف کروائے گئے۔ جنہوں آگے بڑھ کر حقیقت میں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی، قتل و غارت گری کی وہ مثالیں قائم کیں کہ چنگیز خان کی روح خوش ہو گئی ہوگی۔ اس کے علاوہ خارجہ محاذ پہ پاکستان کو جو نقصان ہوا اسکا ازالہ آج تک پاکستان کررہا ہے۔

سب سے بڑا ہاتھ سعودی عرب کے ساتھ ہوا۔ پوری دنیا میں جن لوگوں کو اس نے پیٹرول سے کمائے گئے پیسے کھلائے وہی اس کی گردن کو آگئے۔ جہیمین سے لیکر القاعدہ اور اخوان المسلموں سب سعودیہ کہ یہود سے بڑے کافر سمجھتے ہیں جبکہ ان سب کی پرورش سعودی ریالوں سے ہوتی رہی۔

یہ کہانی بہت لمبی ہے شاید پوری کتاب کا موضوع ہے۔ مختصرا تجزیہ کیا جائے تو دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں کہ علماء ایس کیوں کرتے ہیں۔ ایک خبطِ عظمت، دوسری زعمِ تقوٰی۔ لب لباب یہ ہے مولوی صاحب جتنی مرضی جزباتی تقریریں فرمالیں، اگر گٹے سے گٹا ملاتے وقت آپ کو کرونا لگ گیا تو یہ آیسولیشن وارڈ میں آپ کے پاس بھی شاید نہ آئیں۔ اس وقت حکومت کو گالیاں نکالنے سے اچھا ہے کہ ابھی ان کی بات مان لیں۔

آخر میں سوچنےوالی بات یہ ہے کہ آخر عوام علماء حضرات کے پیچھے چل کے حکومتوں کو کیوں یہودی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ بدگمانی ہے جو حکمرانوں کے متعلق پید کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شاید اسلام سے ویسی محبت نہیں رکھتے جیسی علماء رکھتے ہیں۔ مشرف اور حجاج بن یوسف جیسے حکمراں اس سوچ کو جواز بخشتے ہیں۔ یہ جھگڑے تو چلتے ہی رہیں گے۔ اس وقت لازمی چیز یہ ہے کہ اپنی حفاظت کی جائے۔ جس دن اسلام اتنا کمزور ہوگیا کہ اسے ہماری حفاظت کی ضرورت پڑجائے، اس سے پہلے قیامت آچکی ہوگی۔

ذیشان وارث

Leave a reply