انہوں نے ہمت نہ ہاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!! تحریر: محمد زمان

درحقیقت لکھنا کچھ اور چاہتا تھا پر دسمبر نے کچھ اور نہ لکھنے دیا ضمیر نے ملال کیا کہ دسمبر آئے اور آپ ان لمحات کو یاد نہ کرو تو ان لوگوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی وہ جنہوں نے ہمت ناہاری تھی جنھوں نے پاکستانی قوم میں جرات کا ایک نیا باب کھولا تھا۔تو آج کچھ تذکرہ ان لوگوں کا جنھوں نے تاریخ کو ایک نیا رخ دیا۔جنھوں نے دنیا کو بتایا کامیابی کیا کچھ چاہتی ہے آپ سے۔۔۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے ! ” حوصلہ اور ہمت ہارنے والے کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ” ۔
اس کائنات میں کامیابی کوئی حتمی منزل و مقام نہیں اور نہ ہی ناکامی کوئی حتمی ہوتی ہے ہاں ناکامی کو مستقل بنانے میں مایو سی اور خوف انتہائی اہم کردارادا کرتے ہیں۔درحقیقت یہ صرف زندگی کا ایک لمحہ ہوا کرتا ہے جس نے گزر جانا ہوتا ہے۔ناکامی کے لیے مایوسی کو سر پر بٹھانا پڑتا ہے اور کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحتوں کو بروے کار لانا لازم ہوا کرتا ہے ۔دنیا کا ہر انسان اپنا مقام بنانا چاہتا ہے کچھ ایسا کرنے کا خواہ ہے کہ جس سے اس کی پہچان میں اضافہ ہو اور اس کے لیے اسے کچھ ایسے لوگوں کے ایسے واقعات کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس سے وہ ہمت و استقلال کا سبق لے سکھیں۔جیسے کے تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں۔آپ دنیا کے کامیاب لوگوں کا ذرا مطالعہ کریں تو تمام کامیاب لوگوں میں آپ کو ایک چیز قدرے مشترک ملے گی کہ انہوں نے کامیابی کسی سے متاثر ہو کر یا کسی سخت گیر واقعہ کے تھپیڑے کھا کرحاصل کی ہوگی۔ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ ہم لوگ مایوسی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ اس میں محنت درکار نہیں ہوتی ۔اپنے مشکل اور مایوس کن حالات کو بدلنے کا صرف سوچتے ہیں پر ان عوامل پر عملی اقدام نہیں کرتے جن سے ہماری کامیابی کی راہیں کھل سکیں۔
ہم میں سے اکثر لوگوں سے حالات کا پوچھا جائے تو وہ آپ کو سخت حالات کا شکوہ کرتے ملیں گے اپنی مشکلات کا رونا روئیں گے پر جب ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے درحقیقت ان حالات کو دعوت خود دی ہوئی ہوتی ہے ان سے نمٹنے کا ہنر نہیں سیکھا ہوتا ۔اپنی تمام تر قوت کو منفی باتوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔چلیں ایک لمحہ کے لیے مان لیا جائے کہ آپ کے حالات بہت ہی زیادہ خراب ہیں آپ کے کنٹرول سے باہر ہیں ،آپ کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ،آپ نے اپنی تمام تر قوت لگادی پر بھر بھی ناکام رہے ۔۔۔۔
پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا آپ کے گردنواح میں ایسے لوگ نہیں ہیں کہ جو اسطرح کے حالات سے بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کر چکے ہوں اور ان کو اپنی قوت ،حکمت عملی اور جرات سے ان حالات کو شکست دی ہو؟؟؟؟؟؟؟ آپ کے ہر قسم کے عذر قبول کر لیے جائیں ۔
کیا آپ کے حالات ان سے بھی زیادہ مایوس کن ہیں جیسے کہ 16 دسمبر 2014 کے واقعے میںآرمی پبلک سکول پشاور میں موجود اساتذہ اور طلباء کے تھے ذرا آنکھیں بند کریں اور خود سے پوچھیں …. جس کا یقینی جواب نہیں میں ملے گا تو اتنی مایوسی اور بیزاری کیوں زندگی سے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے حالات ان سے بھی زیادہ مایوسی کن ہیں۔کیا کبھی آپ کے سامنے آپ کے دوستوں اور اساتذہ کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا ؟ کیا آپ کے سامنے آپ کے دوستوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئی ۔۔۔؟ کیا آپ نے کبھی کرسیوں کے نیچے چھپ کر موت کا انتظار کیا؟کیا کبھی آپ کرسیوں کے پیچھے چھپ کہ درندہ صفت انسان کو دیکھتے رہے؟کیا کبھی آپ کے دماغ میں مسلسل خوف نے جنم لیا کہ اگلی گولی آپ کے جسم سے آر پار ہو جائے گی؟ کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا کہ آپ کے آس پاس بیٹھے دوستوں کے جسموں سے دشمنوں کی گولیاں آرپار ہوئی ہوں؟کیا کھبی آپ کو بازوں پرگولی لگی اورآپ گر پڑے دشمن نے آپ یہ سوچ کر چھوڑ دیا ہو کہ یہ مر چکا ہے؟؟کیا آپ کی ماںنے کسی درندہ صفت انسان کے آگے دامن پھیلا کر یہ کہا کہ خدارا بچوں کو کچھ نہ کہیں پر ظالم نے سب سے پہلے آپ کی ماں کو نشانہ بنایا ہو اور آپ یہ منظر کرسیوں کے نیچے چھپ کے دیکھتے رہے؟کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا کہ آپ کی کلاس کے سامنے والی کلاس آپ کے بھائی کی ہو اور ہاں سے گولیوں کے چلنے کی آوازیں آرہی ہوں آپ اسے بھاگ کے بچانا چاہتے ہوں پر آپ کی جان کے تحفظ کے لیے آپ کو ایسا نہ کرنے دیا گیا ہو؟ نہیں ہوا نا آپ کے ساتھ ایسا، دعا ہے کبھی ہو بھی نہ ایسا ۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس حملہ میں زخمی ہونے والے اورخوش نصیبی سے بچ جانے والے اساتذہ اور طلباء نے امید چھوڑ دی ہوگی ،اٰن خوف ذدہ مناظر کو اپنے دماغ میں بیٹھا لیا ہو گا ، اساتذہ نے وہاں پڑھانا چھوڑ دیا ہو گا ،زخمی طلباء نے دوبارہ اس سکول کا رخ نا کیا ہو گا،زخمی طلباء کے والدین نے اپنوں بچوں کو اس سکول جانے سے روک دیا ہو گا…….. جی نہیں حضور ایسا کچھ نہیں ہوا آگے کے لمحات نے میری تو رگ رگ میں جذبہ پیدا کر دیا ۔دیکھتے ہیں آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے آگے آنے والے واقعات کو پڑھ کے……

مجھ میں حیرت کی انتہا تھی جب میں نے یہ دیکھا کہ زخمی طلباء زخموں سے نجات ملتے ہی اپنا پہلا قدم اپنی کامیابی کی راہ پہ پھر سے ڈال دیتے ہیں انہیں اگلے دن سکول میں دیکھا جاتا ہے ۔ان میںسے ایک شہید کے والد نے کہا تھا کہ انہیں فخرہے اپنے شہید بیٹے پر کہ جس نے پوری کلاس کو بچا لیا، اگر یہ لوگ مایوس نہیں ہوئے ،اگر یہ لوگ اپنی منزل سے نہیں ہٹے ،اگر ان کے حوصلہ پست نہیں تو آپ کس لئے اپنے حوصلے پست کیے ہوئے ہیں آپ کس لیے ہمت ہار بیٹھے ہیں،آپ کیو نکر مایوس بیٹھے ہیں، آپ کیونکر زندگی کی ڈور سے تنگ آ چکے ہیں۔۔۔۔؟
یاد رکھیے گا۔۔۔! ” بڑے سے بڑا واقعہ ،بڑی سی بڑی بات آپ میں ذرا بھی تبدیلی نہیں لا سکتی جب تک کہ آپ خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے "۔
یہ واقعات آپ میں ذرا بھی تبدیلی نہیں لا سکتے اگر آپ خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔

اپنے آپ کو مایوسی کی دلدل سے نکا ل لیجیے ۔اگر آپ اس دلدل سے پہلے سے نکلے ہوئے ہیں تو اپنے اطوار بدلیے اپنا طریقہ بدلیے اپنی سوچ کا پیمانہ بدلیے ، ہمت و جرات کامعیار بدلیے۔اگر آپ ایک معلم یا معلمہ ہیں تواپنی ذمہ داری ویسے داد کیجیے جیسے اس معلمہ نے ادا کی تھی جو پریپ کلاس میں موجود تھی ظالموں نے آگ لگا دی پر پھر اپنے بچوں کو یہ کہیے جاری تھی بیٹا پچھلے دروازے سے نکل جائو سب ۔اگر آپ کسی ادارے کے یا گھر کے سربراہ تو اپنی ذمہ داریاں ویسے ادا کریں جیسے اس سکول کی پرنسپل نے ادا کی تھیں۔اگر آپ کو اپنے سکول کو بچوں سے پیار ہے تو اپنا پیار ایسا بنائے جیسا اس معلمہ نے اپنا یا ہوا تھا جو خود زخمی تھی شدید پر سکول کے زخمی بچوں کو ریسکیو کرنے میں بھاگ رہی تھیں جب آرمی کے جوانوں نے ان سے کہا کہ آپ بھی ریسکیو ہونا چاہیے قربان جاوں اس محبت کے کہتی ہیں میرے سکول کے تمام زخمی بچے ریسکیو ہو جائیں میرے لیے ہی ریسکیوہے۔اگر آپ خود کو بہادر سمجھتے ہیں تو آپ ویسے بہادر بنیں جیسے اس سکول کا زخمی بچا بنا جو خود زخمی ہونے کے باوجود دوسروں کو بچانے میں لگا رہا۔اگر آپ کو تعلیم سے محبت ہے تو ویسے محبت کیجیے جیسے اس معلمہ اور اس ماں نے کی تھی جو سکول کے کھولنے کے پہلے ہی دن کہتے ہیں کہ اگر سکول میں کوئی بھی پڑھانے کو نہ آتا تو میں اکیلے ہی پڑھاتی اور اسی ماں کا اپنا جوان بیٹا بھی اس درندگی کا نشانہ بن چکا تھا۔اگر آپ ایک طالبعلم ہیں تو آپ کو اپنے تعلیمی ادارے اور تعلیم سے لگائو ایسا ہونا چاہیے جیسا ان زخمی طلباء کا تھا جو ٹھیک ہوتے ہی سکول کا رخ کرتے ہیں۔

Comments are closed.