اردو اپنانے سے ہی انگریز کی باقیات سے جان چھوٹے گی. حمزہ شفقات

‏ماہر لسانیات ٹام مکارتھر کے مطابق پاکستان میں انگلش لکھنے والے لوگ  چار فیصد سے بھی کم ہیں۔ 

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق سپریم کورٹ اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ لیکن ابھی تک اس کو عملی جامہ پہنانے میں بیوروکریسی کامیاب نہ ہو پائی۔

ماضی قریب میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر رہ چکے حمزہ شفقات نے اپنے ٹوئیٹر تھریڈ میں ماہر لسانیات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں انگریزی زبان لکھنے والے چار فیصد ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں: ‏مقابلے کے تمام امتحانات، سرکاری محکموں کی فائلیں سبھی انگلش میں ہیں۔ اس وجہ سے اکثریت کام کرتے وقت الجھی رہتی ہے۔ اور انہیں %4 کی اجارہ داری رہتی ہے۔ شاید یہ بھی طبقاتی تقسیم کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ رسولوں کو ان کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا تاکہ ‏پیغام صحیح پہنچے۔


انکے مطابق: اردو زبان پورے پاکستان میں سمجھی جاتی ہے اور ہمارے قومی تشخص کی ضامن ۔ زندہ قومیں اپنی زبان کو بولتی بھی ہیں، سیکھتی بھی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ انگلش کو سٹیٹس سمبل نہ بنائیں ۔ انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس کی حاکمیت سے انکار ضروری ہے۔

شفقات نے کہا: ‏اردو اپنانے سے ہی انگریز سرکار کی باقیات سے جان چھٹے گی۔ ہماری زبان تو عربی اور فارسی کا حسین امتزاج ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی پہلی دس زبانوں میں ہے۔ داغ دہلوی کیا اچھا فرماگئے ہیں
انہوں نے آخر میں ایک شعر کہا کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ​

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

حمزہ شفقات کے تھریڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا کہتے ہیں: ‏‎بلاشبہ آپ نے درست نشاندہی کی لیکن آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بیوروکریسی جب کوئی کام کرنا چاہتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت  نہیں روک سکتی اور جب اگر بیوروکریسی نے کوئی کام نہ کرنا ہو تو کوئی طاقت ان سے وہ نہیں کروا سکتی۔

ان کا کہنا تھا: یقیناً ہمیں اردو کو فروغ دینے کے لئے مل جل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انجینئر محمد شہزاد نے توجہ دلائی کہ: ہمارا وفاق اور صوبے آزاد کشمیر کے اردو کے پروٹوکول کی پیروی کیوں نہیں کرتا کیونکہ وہاں سرکاری طور قومی زبان اردو میں اعلامیے جاری کئے  جاتے ہیں۔

یہاں پر انہوں نے آزاد کشمیر حکومت کا جاری کردہ اعلامیہ جو اردو میں ہے بھی پیش کیا۔

Leave a reply