اردو کے ممتاز شاعر افتخار حسین عارف

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخارحسین عارف پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، سابق صدر نشین مقتدرہ قومی زبان، سابق چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان، سابق سربراہ اردو مرکز لندن،تہران میں ایکو (ECO) کے ثقافی ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں اوراس وقت مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین کے عہدہ پر فائز ہیں۔

سوانح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار عارف کی اصل تاریخ پیدائش 21 مارچ 1944ء ہے جبکہ کاغذات میں 1943ء درج ہے سو اسی نسبت سے آپ کے بارے لکھا جاتا ہے کہ آپ 21 مارچ، 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہو گئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔

بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے "اردو مرکز” کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔ اس کے بعد اکادمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ جبکہ نومبر 2008ء سے مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کے بعد آج کل اسلامی جمہوریہ ایران کے دار الحکومت تہران میں ایکو تنظیم کے ثقافتی شعبے کو سبنھالے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں ہونی والی ادبی اور علمی محفلوں کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں افتخارعارف صاحب کی شرکت تقریبا ایک لازمی امر بن گئی ہے۔

شاعری
۔۔۔۔۔۔
افتخار عارف کا اپنی نسل کے شعرا میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔

اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بنا پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔

شعری مجموعے
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)بارہواں کھلاڑی
۔ (2)مہر دو نیم
۔ (3)حرفِ باریاب
۔ (4)جہان معلوم
۔ (5)شہر علم کے دروازے پر
۔ (6)کتاب دل و دنیا کلیات
۔ (7)Writen in the
۔ Season of Fear
۔ (8)مکالمہ
۔ (9)در کلوندہ
۔ (10)افتخار عارف جی نظمن جو سندھی ترجمو

اہم اعزازات:
۔۔۔۔۔۔ Faiz International Award 1988
۔۔۔۔۔۔ Waseeqa-e-eEtraaf 1994
۔۔۔۔۔۔ Baba-e-Urdu Award 1995
۔۔۔۔۔۔ Naqoosh Award 1994
۔۔۔۔۔۔ تمغا حسن کارکردگی1989
۔۔۔۔۔۔ ستارۂ امتیاز1999
۔۔۔۔۔۔ ہلال امتیاز2005

منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے
آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے

خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں

ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا

دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم

بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی
میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی

وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

وہ ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سر بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

زمانہ ہو گیا خود سے مجھے لڑتے جھگڑتے
میں اپنے آپ سے اب صلح کرنا چاہتا ہوں

میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

دنیا بدل رہی ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ
اب روز روز دیکھنے والا کہاں سے لائیں

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

ہوا ہے یوں بھی کہ اک عمر اپنے گھر نہ گئے
یہ جانتے تھے کوئی راہ دیکھتا ہوگا

گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے

جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں

در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

دل کبھی خواب کے پیچھے کبھی دنیا کی طرف
ایک نے اجر دیا ایک نے اجرت نہیں دی

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے
یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا

ہم بھی اک شام بہت الجھے ہوئے تھے خود میں
ایک شام اس کو بھی حالات نے مہلت نہیں دی

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

رند مسجد میں گئے تو انگلیاں اٹھنے لگیں
کھل اٹھے میکش کبھی زاہد جو ان میں آ گئے

خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

غم جہاں کو شرمسار کرنے والے کیا ہوئے
وہ ساری عمر انتظار کرنے والے کیا ہوئے

روش میں گردش سیارگاں سے اچھی ہے
زمیں کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی

اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو

عجیب ہی تھا مرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

شگفتہ لفظ لکھے جا رہے ہیں
مگر لہجوں میں ویرانی بہت ہے

زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

بس ایک خواب کی صورت کہیں ہے گھر میرا
مکاں کے ہوتے ہوئے لا مکاں کے ہوتے ہوئے

کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے
اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا

یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے
یہاں وعدوں کی ارزانی بہت ہے

منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال
ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے

اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

یہ ساری جنتیں یہ جہنم عذاب و اجر
ساری قیامتیں اسی دنیا کے دم سے ہیں

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی ہے
میں اتنی دور ہوں اور مجھ کو وحشت ہو رہی ہے

ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر
اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی
وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں
تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا
مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے

یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے

کاروبار میں اب کے خسارہ اور طرح کا ہے
کام نہیں بڑھتا مزدوری بڑھتی جاتی ہے

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

رنگ سے خوشبوؤں کا ناتا ٹوٹتا جاتا ہے
پھول سے لوگ خزاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

مرے سارے حرف تمام حرف عذاب تھے
مرے کم سخن نے سخن کیا تو خبر ہوئی

اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

وفا کے باب میں کار سخن تمام ہوا
مری زمین پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ
یہ سلسلہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی
یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے

جب میرؔ و میرزاؔ کے سخن رائیگاں گئے
اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا

حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی تلاش
صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے

ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ

خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہل مہر و محبت ہیں دل نکال کے رکھ

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا

عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے

ہمیں بھی عافیت جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے

یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہان رزق میں توقیر اہل حاجت کیا

صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے

جو حرف حق کی حمایت میں ہو وہ گم نامی
ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے

مآل عزت سادات عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا

عاجزی بخشی گئی تمکنت فقر کے ساتھ
دینے والے نے ہمیں کون سی دولت نہیں دی

Comments are closed.