لندن میں خالصتان ریفرنڈم توامریکی سینٹ میں سکھوں کی نسل کشی ُ کی مذمتی قراردادمتفقہ طورپر منظور

0
26

نیوجرسی:لندن میں خالصتان ریفرنڈم توامریکی سینٹ میں سکھوں کی نسل کشی ُ کی مذمتی قراردادمتفقہ طورپر منظور اطلاعات کے مطابق امریکہ کی شمال مشرقی ریاست نیو جرسی کی سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد میں بھارت کی طرف سے 1984میں سکھوں کے قتل عام کو نسل کشیُ قرار دیتے ہوئے امریکی صدر اور دیگر حکام سے اس سلسلے میں آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق سینیٹر سٹیفن ایم سوینی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد امریکی صدر اور نائب صدر، امریکی سینیٹ کے اکثریتی اور اقلیتی لیڈروں ،امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر اور اقلیتی لیڈر اور کانگریس کے ہر رکن کو بھجوائی جائیگی ۔

قرارداد میں کہاگیا ہے کہ بھارتی پنجاب کی سکھ برادری نے جس کے ارکان سو برس قبل ہجرت کر کے امریکہ آگئے امریکہ اور نیو جرسی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سکھوں کی نسل کشی یکم نومبر 1984کو نئی دلی میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ، بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، ہماچل پردیش، راجستھان، اڑیسہ، جموں و کشمیر، چھتیس گڑھ، تریپورہ، تامل ناڈو، گجرات، آندھرا پردیش، کیرالہ، اور مہاراشٹرریاستوں میں شروع ہو ئی۔

قرارداد میں سکھ مذہب کو دنیا کا پانچواں بڑا مذہب قرار دیا گیا ہے جس کے دنیا بھر میں تقریبا تیس کروڑ نوے لاکھ ماننے والے ہیں جن میں سے دس لاکھ امریکہ میں مقیم ہیں۔قرارداد کے مطابق تین دن تک جاری رہنے والی سکھوں کی نسل کشی میں تیس ہزار سے زائد سکھوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔قرارداد میں16اپریل 2015کو کیلیفورنیا کی ریاستی اسمبلی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک قراردادکا حوالہ دیاگیا ہے جس میں بھارتی حکومت کی طرف سے سکھوں کے منظم قتل عام کا اعتراف کیا گیاہے۔

قرارداد میں 1984کے سکھ نسل کشی کے دوران اپنی جانیں گنوائیں۔17اکتوبر 2018کو پنسلوانیا کی دولت مشترکہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد HR-1160منظور کی جس میں نومبر 1984میںسکھوںپر ظلم و تشدد کو نسل کشی ُ قرار دیا گیا۔

قرارداد میں کہاگیا ہے کہ عینی شاہدین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے اکٹھے کئے گئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار براہ راست اور بالواسطہ طریقوں سے سکھوں کے قتل عام میں ملوث تھے اور وہ یہ سلسلہ بند کرانے میں ناکام رہے۔2011میں بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقوں ہوند چلر اور پٹودی کے دیہات میں اجتماعی قبریںدریافت ہوئی ہیں۔

نئی دہلی کے تلک وہار محلے کی "بیوہ کالونی” میں آ بھی ہزاروں سکھ خواتین انصاف کی منتظر ہیںجن کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور ان کے شوہر، والد اور بیٹوں کو قتل کردیا۔سکھوں کے قتل عام میں زندہ بچ جانیوالی آخر کار ہجرت کر کے امریکہ چلے گئے اور انہوں نے فریسنو، یوبا سٹی، سٹاکٹن، فریمونٹ، گلینروک، پائن ہل، کارٹریٹ، نیو یارک سٹی اور فلاڈیلفیا میں سکونت اختیار کی اور بڑی سکھ برادریاں قائم کیں۔

1984میں پورے بھارت میں ریاستی سرپرستی میں سکھوں پر وحشیانہ ظلم و تشدد اور انکے قتل عام کا اعتراف ، انصاف اور احتساب کی جانب ایک اہم اور تاریخی قدم ہے، جودیگر ممالک کی حکومتوں کیلئے ایک مثال بھی ہے ۔ریاست نیو جرسی کی سینیٹ کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد امریکی صدر اور نائب صدر، امریکی سینیٹ کے اکثریتی اور اقلیتی لیڈروں ،امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر اور اقلیتی لیڈر اور کانگریس کے ہر رکن کو بھجوائی جائیگی ۔

Leave a reply