فوکس واگن شدید بحران سے دوچار،متعدد پلانٹس کو بند کرنے کا اعلان،ورکرز کی ہڑتال

چین کے ساتھ سخت مقابلہ فوکس واگن کو پہنچنے والے سخت نقصانات کی اہم ترین وجوہات ہیں
germany

جرمنی کی میٹل ورکرز کی صنعت کی یونین ’’ای جی میٹال‘‘ نے جرمن کارساز کمپنی فوکس واگن کی جرمن فیکٹریوں کے ہزاروں ملازمین، ملازمتوں میں کمی کے منصوبے کے خلاف پیر دو دسمبر کو ہڑتال کی-

باغی ٹی وی: ووکس ویگن کے ہزار وں کارکنوں نے بڑھتے ہوئے صنعتی تنازعہ میں پیر کو ہڑتال کر دی، یونینوں نے خبردار کیا کہ بحران سے متاثرہ جرمن آٹو کمپنی بڑے پیمانے پر چھانٹی اور فیکٹریاں بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یونین ذرائع نے بتایا کہ صبح کی شفٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے دو گھنٹے تک ہڑتال کی، جب کہ شام کی شفٹ میں کام کرنے والوں نے کار ساز کے مطالبات، جس میں اجرت میں 10 فیصد کٹوتی بھی شامل ہے، پر احتجاج کرتے ہوئے جلد کام چھوڑنے کا ارادہ کیا، وولفسبرگ میں ووکس ویگن کے مرکزی پلانٹ میں، جس میں 70,000 افراد کام کرتے ہیں، دو گھنٹے کی ہڑتال کا مطلب ہے کہ کئی سو کاریں نہیں بن سکتیں-

جرمنی کا دیو پیکر کارساز ادارہ فوکس واگن شدید بحران سے دوچار ہے رواں سال ستمبر میں ہونے والے اس اعلان کے بعد کہ جرمنی میں اس کے متعدد پلانٹس کو بند کر دیا جائے گا، ٹریڈ یونینوں اور فوکس واگن کمپنی کے سرمایہ کاروں کے مابین سخت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جرمنی کے اندر فوکس واگن کے پلانٹس کو بند کرنے کے منصوبے سے براہ راست ایک لاکھ بیس ہزار ملازمین متاثر ہو سکتی ہیں۔

یہ پہلی بار ہے کہ کمپنی نے اپنی 87 سالہ تاریخ میں جرمنی میں فیکٹریاں بند کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ یورپی مینوفیکچررز غیر ملکی مسابقت، اعلی پیداواری لاگت اور براعظم میں الیکٹرک گاڑیوں کی سست رفتاری سے لڑ رہے ہیں۔

یورپ میں وی ڈبلیو کاروں کی فروخت میں کمی آئی ہے کیونکہ ڈیمانڈ اسٹالز اور صارفین پیٹرول موٹرز میں دلچسپی لے رہے ہیں،عالمی سطح پر، سال کے پہلے تین مہینوں میں فروخت میں تین فیصد کی کمی واقع ہوئی کیونکہ پٹرول موٹروں کی فروخت میں چار فیصد اضافہ ہوا۔

Stellantis – جو Vauxhall کا مالک ہے نے اس ہفتے کے شروع میں مینڈیٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جب اس نے لوٹن میں اپنی وین فیکٹری کو بند کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا، جس سے 1,100 ملازمتیں خطرے میں پڑ گئیں۔ چیف ایگزیکٹیو کارلوس ٹاویرس نے اتوار کے روز اچانک استعفیٰ دے دیا جب گروپ اس سال اپنی قیمت کا تقریباً 40 فیصد کھو دیا-

فورڈ کے یوکے بازو کے باس نے گزشتہ ماہ کے آخر میں خبردار کیا تھا کہ برقی کاروں کی مانگ میں زبردست کمی کی وجہ سے برطانیہ کی کار انڈسٹری بحران کا شکار ہےفورڈ یو کے کی چیئرمین اور مینیجنگ ڈائریکٹر لیزا برینکن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دلچسپی کو بڑھانے کے لیے فوری طور پر ‘مراعات’ متعارف کروائیں۔

یورپ کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی کے بحران نے جرمنی کو اقتصادی غیر یقینی صورتحال اور ملکی سیاسی ہلچل کے ساتھ ساتھ خطے کے کار ساز اداروں کے درمیان وسیع تر انتشار کے وقت متاثر کیا ہے۔

جرمن زبان میں ”فوکس واگن‘‘ سے مراد عوامی گاڑی ہے، اس موٹر کار کا معیار اور اس کی پائیداری کی ضمانت یہ تھی کہ جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی یہ بہت زیادہ استعمال ہونے والی گاڑی سمجھی جاتی رہی ہے، اب اس کار ساز ادارے کو سب سے بڑی زک جو پہنچی ہے اُس کا تعلق جرمنی کے اندر اس پر آنے والی بلند پیداواری لاگت ہے، دوسری جانب الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں تیز رفتار اضافہ اور کلیدی مارکیٹ چین کے ساتھ سخت مقابلہ فوکس واگن کو پہنچنے والے سخت نقصانات کی اہم ترین وجوہات ہیں۔

جرمنی کی آٹو موٹیو انڈسٹری واحد صنعت نہیں ہے جو توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور زیادہ اجرتوں جیسے بنیادی مسائل کا شکار ہے، فوکس واگن کو گھر میں اعلیٰ پیداواری لاگت، الیکٹرک گاڑیوں میں ہنگامہ خیز تبدیلی اور کلیدی مارکیٹ چین میں سخت مقابلے کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا ہے چین کا عالمی معیشت میں بدلتا ہوا کردار اور ایک حریف، ایک سخت مدمقابل ہونا جرمن معیشت کے لیے بڑے چیلنجز کا سبب بنا ہے۔

جرمنی کے معروف کار مینوفیکچررز کی گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار سے یہ صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ محض سال رواں کی پہلی ششماہی کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ فوکس واگن کی فروخت میں 14 فیصد، بی ایم ڈبلیو کی فروخت میں 15 فیصد اور مرسیڈیز بینز کی فروخت میں 16 فیصد کی کمی آئی ہے۔

گزشتہ ماہ یونین اور فوکس واگن کی ورکس کونسل نے کئی تجاویز پیش کیں تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ موٹر سازی کی فیکٹریوں یا سائٹس کی بندش کے بغیر لیبر کاسٹ یا مزدوری کے اخراجات میں 1.5 بلین یورو (1.6 بلین ڈالر) کی بچت ممکن ہے، ان میں انتظامیہ اور عملے کے لیے بونس ختم کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔

یونین نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کچھ فیکٹریوں میں کام کے گھنٹے کم کرنے کے بدلے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ بھی ختم کر سکتی ہےتاہم فوکس واگن نے کہا کہ ان تجاویز سے قلیل المدتی بنیادوں پرمدد مل سکتی ہے،مگر یہ معاشی مسائل کا طویل المدتی حل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی کمپنی کو اس سے ریلیف ملے گا۔

فوکس واگن کے اس رویے کو جرمنی کی میٹل ورکرز کی صنعت کی یونین ”ای جی میٹال‘‘ نے ”افسوسناک‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر ”ملازمین کے نمائندوں کی تعمیری تجاویز کو نظر انداز کرنے‘‘ کا الزام لگایا۔

واضح رہے کہ جرمنی میں آٹوموٹیو سیکٹر ہی یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے اس ملک کی معیشت کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے پچھلے سال جرمنی نے 273 بلین یورو مالیت کی کاریں برآمد کیں جرمنی کی برآمدات میں موٹر گاڑیوں کا حصہ 17 فیصد سے زیادہ ہے، اس کے بعد مشینری، کیمیکل، الیکٹرانکس، دوا سازی، دھاتیں اور دیگر مصنوعات ہیں، اس کے علاوہ جرمن گاڑیوں کی فیکٹریا ں اندرون ملک کئی شہروں اور دیہات میں واقع ہیں اور ان علاقوں میں رہنے والوں کے لیے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔

Comments are closed.