وعدے نہیں نظام بدلو؛ علی چاند

0
61

پاکستان بنانے کا مقصد ایک ایسے خطے کا حصول تھا جہاں مسلمان اپنے دین اسلام کے مطابق آزدانہ زندگی گزار سکیں اور اپنے اسلامی اصول و قوانین پر عمل کر سکیں ۔ مسلمانوں نے اس لیے بے انتہا قربانیاں دیں تا کہ ان کی آنے والی نسلیں پاکستان میں رہ کر اسلام پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ لیکن پاکستانیوں کی بدقسمتی کہ انہیں ایسے حکمران ملے جنہوں نے اس پاک دھرتی پر اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو کامیاب ہونے میں ہمیشہ مدد دی ۔ پاکستانی کی سرزمین میں عاشق رسول ﷺ تو پھانسی کے پھندے تک پہنچتے رہے لیکن پاکستان کہ غدار اور اسلام کے دشمن ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کے تحفظ میں رہے ۔ اس پاک دھرتی میں اسلامی قوانین تو راٸج نہ کیے جاسکے البتہ میڈیا کے ذریعے پاکستان میں لبرل ازم کو فروغ ضرور دیا جاتا رہا ہے ۔ اسلام کے نام لیواٶں پر تو یہ زمین تنگ کر دی گٸی لیکن محب وطن پاکستانیوں پر غداری کے مقدمات درج کٸیے گے اور پاک فوج اور پاک وطن اور اسلام کو نقصان پہنچانے والے باعزت بری ضرور ہوتے رہے ۔ پاکستان کے عوام جنہوں نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں عملا نافذ کرنا تھا وہ روٹی کپڑا مکان ، قرض اتارو ملک سنواروں ، ایک کروڑ نوکریوں ، اور دو نہیں ایک پاکستان جیسے نعروں میں ہی الجھ کر رہ گے ۔ نعرے تو ہر الیکشن میں بدلتے رہے ۔ بلہ الیکشن سے پہلے اور نعرے ہوتے جبکہ الیکشن کے بعد مزید نٸے نعرے آجاتے ۔ لیکن ان کھوکھلے نعروں نے ہمیں دیا کیا ؟ کیا پاکستان سے قرضہ ختم ہو گیا ؟ کیا عوام کو روٹی کپڑا اور مکان مل گیا ؟ کیا دو نہیں ایک پاکستان بن گیا ؟ کیا عوام کو انصاف ان کے دروازے پر ملنا ممکن ہوگیا ؟ کیا پولیس کا نظام ، عدلیہ کا نظام ، نظام حکومت سب بدل گیا ؟ کیا یہ سب بدل کر پاکستانی عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہوگیا ؟ ہرگز نہیں اور نہ ہی ایسا تب تک ہو سکتا ہے جب تک ہم اہنا نظام نہ بدل لیں ۔ اگر ملک کو خوشحال بنانا ہے ، عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرنی ہیں تو پھر نعرے نہیں نظام بدلنا ہوگا ۔ نظام بھی نچلی سطح سے لے کر اعلی سطح تک بدلنا ہوگا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نظام میں بدلا کیا جاٸے ۔ تو سنیں نظام بدلنا کیسے ہے اور کس طرح نظام بدلے گا ۔ ہمارا پولیس کا نظام وہی جو انگریز نے بنایا یعنی عوام کو حکمرانوں اور سیاستدانوں ، جاگیرداروں ، وڈیروں سے ڈرا کر رکھنا اور بدقسمتی سے ہمارا نظام آج بھی وہی ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کا نظام اس محکمے کے مقاصد وہی رکھیں جاٸیں جو امیر المٶمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس محکمے کو قاٸم کرتے وقت بناٸے تھے ۔ قصور میں آٸے دن بچوں کا ریپ اور پھر درد ناک قتل اس سب کا ذمہ دار موجودہ نظام اور اس نظام کو قاٸم کرنے والے ہیں ۔ اگر اسلامی شریعت کے مطابق ان بچوں کے قاتلوں کو سر عام سزاٸیں دی جاٸیں تو آٸیندہ کسی کی جرأت نہیں ہوگی کسی معصوم بچے کی طرف غلط نظر سے دیکھ سکے ۔ ہمارے ملک میں رشوت خوری جہاں عروج پر ہے جہاں چور ڈاکو ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر جاٸدادیں بنا لیں یہاں اگر اسلامی شریعت نافذ ہوتی تو پہلی دفعہ ہی چر کا ہاتھ کاٹنے پر اسے عبرت مل جاتی کہ آٸیندہ ہم نے حرام پیسے کو ہاتھ نہیں لگانا ۔ انہیں پتہ ہوتا کہ ہم نے اپنے کتوں کو شہزادے بنا کر نہیں رکھنا بلکہ کتے کے کاٹے کی ویکسین رکھنی ہے ۔ دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ان وزیروں مشیروں اور وزیر اعظم کا رہن سہن رکھا جاٸے ۔ دربان یعنی سیکیورٹی گارڈ ، پروٹوکول ختم کیاجاٸے ۔ وزیر اعظم کی تنخواہ عام مزدور کے برابر لاٸی جاٸے تاکہ سب کا معیار زندگی ایک ہو ۔ وزیروں مشیروں کی شاہانہ گاڑیوں پر پابندی لگاٸی جاٸے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صوبوں کے والیوں کو ترکی گھوڑا استعمال کرنے سے منع کیا تھا ۔ اسلامی قانون کے مطابق زکوة و عشر امیروں سے لے کر غریبوں کو دینے کا حکم تھا مگر یہاں غریب کے بچے کی دو روپے کی ٹافی پر بھی ٹیکس لگا کر امیروں کو دیا جارہا ہے ۔ ٹیکس ختم کر کے زکوة و عشر کا نظام لایا جاٸے تاکہ فاٸدہ غریب کا ہو اور امیر کا بھی مال پاک ہوجاٸے ۔ یہ قانون بنایا جاٸے کہ جو حکمران قرض لے گا وہی اس قرض کو واپس بھی کرے گا نہ کہ اس ملک کی غریب عوام کو پیسا جاٸے گا ۔ ملک کی لوٹی ہوٸی رقم واپس لانے کا آسان حل ان چوروں ڈاکوٶں میں سے کسی دو کی سر عام گردنیں اتار دی جاٸیں ۔ باقی روپیہ خود واپس کریں گے ۔ اور اس قانون پر عمل میں خیال یہی رکھا جاٸے کہ اگر اپنی بہن یا بیٹی کی چوری اور زکوة کی جاٸدادیں باہر ہیں تو اسے بھی سزا دی جاٸے ۔

پاکستان میں حکمران صرف اسی کو منتخب کیا جاٸے ، چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف تک کے عہدے ان لوگوں کو دٸیے جاٸیں جن کے بزرگ پاکستان میں دفن ہیں جن کی اپنی ساری عمریں اسی پاکستان میں گزر گٸیں اور جن کے بچے بھی ہمیشہ پاکستان میں رہے ہیں ۔ ایم این اے ، ایم پی اے سے پروٹوکول ، سرکاری گاڑیاں سیکیورٹی واپس لی جاٸے اور انہیں پابند کیا جاٸے کہ یہ لوگ عام عوم کے ساتھ سفر کریں ۔ پھر دیکھیں ملک میں کوٸی ایک ادنی سی چوری بھی ہوگٸی یا دھماکہ ہوگیا تو کہنا ۔ شراب پر پابندی عاٸد کی جاٸے اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال پر سر عام کوڑے مارے جاٸیں تاکہ کالجز اور یونیورسٹیوں میں نشہ کے کاروبار ختم ہوں ۔ مزدوروں کے لیے ہسپتال الگ بناٸیں جاٸیں اور پھر ان عوامی نماٸیندوں کو پابند کیا جاٸے کہ وہ اپنا علاج انہیں ہسپتالوں سے کرواٸیں ۔ مزدور کا جیسا علاج معالجہ ہو ویسا ہی ان عوامی نماٸیندوں کا بھی ۔ بے حیاٸی کے خاتمے کے لیے بچوں کے بالغ ہوتے ہی ان کی شادیاں کروانے پر حکومتی سطح پر سختی کی جاٸے ۔ جو وزیر بے حیاٸی پھیلانے والوں کے ساتھ نظر آٸے اس کے لیے سزا مختص کی جاٸے تاکہ وہ بے حیاٸی پھیلانے والیوں کو ایوارڈ دینے کی بجاٸے شریعی سزا دے سکیں ۔ پہلی وحی ” پڑھ اپنے رب کے نام سے ” پر عمل کیاجاٸے اور اپنے رب کی دی ہوٸی تعلیم یعنی اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم دی جاٸے ۔

لیکن یہ سبھی قوانین تب بنے گے جب لیڈر اور نماٸیندے ایمان دار ہوں گے ۔ حرمت نبی ﷺ کو بیچ دینے والے ، شراب جس نے پینی ہے پی جس نے نہیں پینی نہ پیے کہنے والے ایسا نظام نہیں لاسکتے ۔ جو اپنے حرام پن کا دفاع کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ جسے خالص دودھ ویسے مل جاٸے اسے گاٸے پالنے کی کیا ضرورت ہے وہ یہ نظام کیسے لاسکتے ہیں ۔ جو یہ کہے قادیانی ہمارے بہن بھاٸی ہیں وہ یہ نظام کیسے لاسکتے ہیں ؟ جو یہ کہیں کہ پتنگ بازی چھوڑنی ہے تو قربانی کرنا بھی چھوڑ دیں وہ یہ نظام کیسے لاسکتے ہیں ؟ جن کے اپنے بچے باہر کے ملکوں میں والدین کی عزتیں خاک میں ملا رہے ہیں وہ یہ نظام کیسے لاسکتے ہیں ؟

اللہ ہمارے شہدا کی قربانیاں قبول فرماٸے اور کوٸی معجزہ دکھا دے کہ ہم بھی اپنے وطن کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنتے ہوٸے دیکھ سکیں ۔ آمین

Leave a reply