معاشرتی تبدیلی کا واحد رستہ،خود احتسابی

khod ehtsabi

آج کے دور میں ہم جس معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویے، اخلاقی معیار، اور ریاستی ذمہ داریوں کا لحاظ نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم اور معاشرہ مسلسل بدعنوانی، ناانصافی اور عدم مساوات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کا حل ایک سادہ سا اصول ہے: "سسٹم اور معاشرے کو بدلنے کے لیے پہلے خود کو بدلنا ہوگا”۔

آج بھی ہمارے معاشرے میں جہیز کا مسئلہ انتہائی حساس اور سنگین ہے۔ لڑکوں کی طرف سے یہ بات کبھی نہیں سنی جاتی کہ انہیں جہیز نہیں چاہیے یا وہ اس نظام کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ لڑکوں کو یہ بات سمجھانے کی بجائے لڑکیوں پر جہیز دینے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ یہ ایک غلط رسم ہے جو نہ صرف معاشرتی عدم مساوات کو بڑھاتی ہے، بلکہ اخلاقی طور پر بھی غلط ہے۔

جہاں لڑکوں کی طرف سے جہیز کے حوالے سے خاموشی ہے، وہیں لڑکیاں دوسری شادی کی افادیت پر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے کہ معاشرتی اور اقتصادی حالات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، ہم اس بات کو صرف افسوس کے ساتھ نظر انداز کرتے ہیں۔ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ وہ دوسری شادی کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ کریں، کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اس سے ان کی عزت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایک اور خامی یہ ہے کہ بھائی بہنوں کی وراثت پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ وراثت کا حق ہر فرد کا ہوتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، لیکن ہمارے معاشرے میں مردوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ بہنوں کی وراثت میں حصہ نہ دیں۔ اس مسئلے پر بات کرنا یا اس کے حل کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہر کسی کی نظر میں "غیر ضروری” سمجھا جاتا ہے۔

مختلف کاروباری طبقے میں موجود افراد، خصوصاً سیٹھ لوگ، حرام کمائی سے منسلک مسائل پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حرام کی کمائی کو چھپانے کی کوشش کرنا اور اس پر گفتگو سے بچنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ اس سے ہمارے معاشرتی اصول اور اخلاقیات کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

مزدور طبقے کا کام ہمارے معاشرے میں ہمیشہ پس پشت رہتا ہے۔ جب محنت اور جدوجہد کی بات ہوتی ہے، تو زیادہ تر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کام صرف اپنے گھریلو معاملات تک محدود ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محنت کرنے والے ہی معاشرتی ترقی کا بنیادی ستون ہیں۔

ایک اور مسئلہ جو ہمارے معاشرتی رویوں میں پایا جاتا ہے وہ بیویوں کی طرف سے صرف شوہر کی ذمہ داریوں پر زور دینا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ شوہر صرف ان کی ضروریات پوری کرے، لیکن انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ شوہر کے بھی کچھ حقوق ہیں اور دونوں کے درمیان توازن ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس، شوہر بھی اپنے حقوق پر زور دیتے ہیں، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے رشتہ اکثر تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو شہریوں اور ریاست کے تعلقات کا ہے۔ شہری اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو سنجیدہ نہیں لیتے، اور ریاست بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتی ہے۔ ریاست صرف قوانین بنانے تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے، جبکہ اس کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ایک بنیادی فرض ہے، جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

ان تمام مسائل کی جڑ دراصل خود احتسابی میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کریں اور یہ تسلیم کریں کہ معاشرتی مسائل میں ہر فرد کا کردار ہوتا ہے، تو ہم سسٹم کی تبدیلی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ اگر ہر فرد اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، تو مجموعی طور پر سسٹم اور معاشرتی ڈھانچہ بھی بہتر ہو گا۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشرتی تبدیلی کا آغاز ہم سے ہی ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک معاشرتی سسٹم میں تبدیلی ممکن نہیں۔ خود احتسابی کی بنیاد پر ہم اپنے رویوں، اخلاقیات اور ذمہ داریوں کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ایک مضبوط، خوشحال اور انصاف پسند معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ہمیں اپنے اندر کی خودی کو بیدار کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک صحت مند اور کامیاب قوم کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

Comments are closed.