ولائتی انڈے۔۔۔۔۔غلام زادہ نعمان صابری

0
27

اندرون شہر لاہور کی کچھ گلیاں اور محلے دن کو سوتے اور رات کو جاگتے ہیں۔ایسے ہی ایک محلے کی گلی کا موڑ مڑتے ہوئے اس نے دیکھا کہ چند بابے تھڑے پر بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔

اس نے موڑ مڑتے ہی با آواز بلند گرم انڈوں کا نعرہ لگایا جو سیدھا ان کے کانوں سے جا ٹکرایا۔سردیوں کی رات کی ٹھنڈ،تاش کا چسکا اور گرم انڈوں کی پراسرارلذت نے ان کے دل ودماغ کو یکجان ہو کر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ گرم انڈوں کی آواز لگانے والے کو فی الفور شرف ملاقات عطا فرمائی جائے اور گرم گرم انڈوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔

باباشیدا ٹانگے والا اور بابا بوٹا تمباکو والا مسلسل تیسری بازی ہار چکے تھے،جیتنے والوں نے گرم چائے کے ساتھ گرم انڈوں کی بھی فرمائش کا اضافہ کر دیاتھا ۔ہارنے والے بھی "تھوہڑ دلئے "نہیں تھے بلکہ جی دار قسم کے بابوں کی فہرست میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔

بابے بوٹے نے نورے انڈوں والے کو آواز دی اور اپنے پاس بلایا۔نورا انڈوں والا بھی اسی علاقے کا رہائشی اور ان کے قریبی محلے کا باسی تھا اور انڈوں کا تھوک کا کاروبار کرتا تھا،اندرون شہر ولائتی انڈوں کا سب سے پہلے اسی نے کاروبار شروع کیا تھا اور پورے شہر میں اسی کی سپلائی جاتی تھی۔نور محمد سے بالآخربابا نورا انڈوں والا کے نام سے مشہور ہو گیا۔دورونزدیک سے آنے والا کوئی بھی بندہ اگر کسی بچے سے بھی بابا نورے کے بارے میں پوچھتا تو وہ اس کی انگلی پکڑ اسے بابا نورا کی دکان پر پہنچا دیتاتھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انڈوں کی ڈیمانڈ بھی بڑھنے لگی،مٹھائی سے لے کر بیکری تک اور ہوٹلوں سے لےکر گھروں تک تو انڈوں کی مانگ تھی،انڈہ اچھا ہو تو چلتا ہے گندہ انڈہ کس کام کا۔

گندے انڈے بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن سیاست میں گندے انڈوں کی ورائٹی گننا بہت مشکل کام ہے۔
کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ انڈہ صرف مرغی کا ہی ہوتا ہے?

سیاست کے گندے انڈوں نے وہ غلیظ بچے نکالے ہیں جنہوں نے پورا ملک تعفن زدہ کر دیا ہے۔ان پر شمامۃ العنبر کی لاکھ بوتلیں چھڑک ڈالیں لیکن خوشبو کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔

ہمارا ملک گندے انڈوں کے سبب ترقی کی وہ منازل طے نہیں کر سکا جو اس کا حق تھا۔آج پاکستان جس چوراہے پر کھڑا ہے اس کے ذمہ دار صرف یہی گندے انڈے ہیں جنہوں نے گندہ ہونے کے باوجود کرشماتی طور پر کچھ نہ کچھ ضرور جنم دیا ہے۔

بابا بوٹا انڈوں والا جانتا تھا کہ یہ” پتہ کھلاڑی”اپنے پتے کو گرم کرنے کے لئے ٹھنڈی رات کے اس پچھلے پہر گرم انڈے ضرور کھائیں گے۔

وہ ان کے پاس گیا اور گرم انڈوں والی ٹوکری رکھ کر بیٹھ گیا۔بابابوٹا تمباکو والا نورے کو بہت اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ بابا بوٹا تمباکو والا انڈوں کا حلوہ بہت اچھا بناتا تھا اور وہ انڈے اسی سے خریدتا تھا۔

بابا بوٹا نے نورے سے پوچھا کہ یار سچ سچ بتانا تو اس مقام تک کیسے پہنچا جبکہ اس علاقے میں تجھ سے بڑا انڈوں کا کوئی سوداگر نہیں تھا اور لوگ قطار میں کھڑے ہو کر انڈے خریدتے تھے۔

بابا نورا نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھے اور ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔
بوٹے”رج پچانا بڑا اوکھا کم اے”

میرا انڈوں کا کاروبار اس قدر عروج پر تھا اگر مجھ میں انسانیت ہوتی تو آج میں اس علاقے کا سب سے زیادہ امیر شخص ہوتا۔

بوٹے تمہیں تو معلوم ہے کہ دیسی انڈے ولائتی انڈوں سے زیادہ مہنگے بکتے ہیں،مجھے ایک دن شیطان نے بہکایا اور میرے کان میں آ کر کہنے لگا کہ نورے ساری زندگی ولائتی انڈے ہی بیچتا رہے گا،کچھ ترقی کرنے کا بھی سوچ میرے کان کھڑے ہوئے میں نے مشورہ مانگا تو کہنے لگا کہ آسان طریقہ ہے ولائتی کو دیسی بنانے کا۔

بس پھر کیا،پوچھو مت۔۔۔۔۔میں نے شیطان کے بتائے ہوئے فارمولے پر دل و جان سے عمل کیا اور ولائتی انڈوں کو دیسی انڈے بنا کر بیچنا شروع کر دیا،منافع تو بے حد ہوا مگر حرام کی حد ختم ہو گئی۔

شروع شروع میں تو شیطان نے میرا بہت ساتھ دیا اور میری راہنمائی میں پیش پیش رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ وہ مجھے بیچ منجدھار میں ہچکولے کھاتا چھوڑ کر مفرور ہوگیا اس کے جانے کی دیر تھی لوگوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے اور کہنے لگے ۔۔۔۔۔بوٹیا! انڈوں میں دیسی والا سواد نہیں آ رہا۔

بس پھر کیا !لوگ آہستہ آہستہ دکان کا راستہ بھولنے لگے دیسی اور ولائتی انڈے خراب ہونا شروع ہو گئے،دیسی انڈے بیچتے بیچتے ولائتی انڈے بیچنے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

لالچ نے اندھا کردیا تھا اور ہاں بابا بوٹے تجھے یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ شیطان یہ شیدا ٹانگے والا تھا جو تیرے سامنے بیٹھا ہوا شیطانی ہنسی ہنس رہا ہے،یہ خود بھی ڈوبا ہے اور ساتھ مجھے بھی ڈبو دیا۔

بابا بوٹے نے شیدے کی طرف غراتی نظروں سے دیکھا تو شیدے نے تاش کے پتے جنہیں وہ ہاتھ میں پھینٹ رہا تھا زور سے زمین پر پھینکے اور کہنے لگا،بوٹے ایک بات تو بتا!

بوٹے نے کہا پوچھ!
شیدا کہنے لگا اگر میں تمہیں کہوں کہ کنویں میں چھلانگ لگاؤ تو کیا تم کنویں میں چھلانگ لگا دو گے!
بوٹے نے کہا کہ کیا میں پاگل ہوں

بس اپنی سوچ اور نورے کی سوچ کا تو خود ہی موازنہ کر لے،شیدے نے بوٹے سے کہا۔
گرما گرم ولائتی انڈوں کی ٹوکری اتنی دیر میں خالی اور چائے کی پیالیوں پر ملائی کی پرت جم چکی تھی اور مرغوں نے اذانیں دینا شروع کر دی تھیں۔

ولائتی انڈے۔۔۔۔۔غلام زادہ نعمان صابری

Leave a reply