والدین ، اخلاص اور محبت کا دوسرا نام بقلم:محمد نعیم شہزاد

والدین ، اخلاص اور محبت کا دوسرا نام
محمد نعیم شہزاد

آفرینش کائنات سے نسلِ انسانی مسلسل ارتقاء کی منازل طے کرتی چلی آ رہی ہے۔ اولین بشر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے مٹی سے بنایا اور اس میں روح پھونک کر اس کو جیتا جاگتا انسان بنایا اور اسی کے جسم سے اس کی زوجہ کو پیدا کر دیا۔ ابتدائے آدمیت جن ہستیوں سے ہوئی انھیں بابائے آدم (نسل انسانی کا باپ) اور اماں حوا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھیں دونوں سے انسانی نسل جاری ہوئی اور تا قیامت ہر متنفس بشر ان کی اولاد ہی تصور ہو گا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان اپنے وجود، اپنی شناخت اور ذات ہر اعتبار سے والدین کا محتاج ہے۔
انسان پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا ذریعہ دو شفیق ہستیوں کو بنا دیا جو اس کی راحت و تسکین کے لیے ہر مصیبت جھیلنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ اور اس کا مستقبل سنوارنے کی دھن میں مگن اپنا حال بسر کر دیتے ہیں۔ ان کی کامیابی اور ناکامی کا معیار اپنی ذاتی زندگی پر منحصر ہونے کی بجائے اولاد کی زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اور ان کی خوشیوں کا مرکز و محور یہی اولاد ہی ہوتی ہے۔ اولاد کے لیے سب سے بڑی نعمت والدین کی ذات کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ والدین کے سہارے اولاد کو کسی قسم کا مسئلہ اور ضروریات پریشان نہیں کرتیں اور وہ اپنے آپ کو بے تاج بادشاہ تصور کرتے ہیں۔ اور حقیقی معنوں میں بادشاہت کے مزے لوٹتے ہیں۔
انسان اپنی زندگی میں مخلص دوستوں کی تلاش میں رہتا ہے مگرسب سے بڑھ کر مخلص ہستیاں جو اس کے اپنے گھر میں موجود ہیں ان سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ تصویر کا یہ ایک بھیانک رخ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ اولاد جس کو والدین آسائش و آرام سے بھری زندگی دیتے ہیں، جب خود ضعیف العمر ہو جاتے ہیں تو خود کو بے آسرا پاتے ہیں۔ ایک واعظ نے دوسروں کو معاف کرنے کے فضائل بیان کیے تو ایک بوڑھے باپ نے روتے ہوئے سوال پیش کر دیا کہ جس اکلوتے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ایک کامیاب انسان بنایا، گھر اور گاڑی دی، ہر آسائش مہیا کی آج اسی بیٹے نے اس گھر سے مجھے نکال دیا ہے، میں کیسے اس کو معاف کر دوں؟؟؟
اس بزرگ کے سوال کو جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ خدارا کچھ سوچیے۔ اس دنیا میں اس قدر محو ہو کر نہ رہ جائیں کہ آپ کو اس دنیا میں لانے والے والدین ہی بھول جائیں اور آسائشیں دینے والے والدین کو دکھوں اور تکلیفوں کے سپرد کر دیں۔
یہ دنیا مکافات عمل کا گھر ہے، اگر ہم آج اپنے بوڑھے والدین کا خیال نہ کریں گے تو آج جس نو عمر اولاد کے ناز نخرے ہم اٹھاتے ہیں کل کو یہ بھی ہم سے ایسا ہی سلوک روا رکھیں گے۔ اور پھر ہمارا احساس اور پچھتاوا کچھ کام نہ آ سکے گا اور پشیمانی ہی مقدر ٹھہرے گی۔

Leave a reply