حضرت عبد اللہ بن عمر کا ارشاد ہے: ’’اپنی اولاد کوادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔‘‘
دنیا میں موجود آدھا علم صرف نصیحت کا علم ہے یعنی دوسروں کو ناکامی سے بچانے کا علم، اولاد کی تربیت والدین کے بنیادی فرائض میں شامل ہوتی ہے۔ تربیت سے محروم بچے کبھی معاشرے کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوتے ابتدائی مرحلہ میں بچے کی ذہن کی زرخیزی کے لیے والدین کے اچھے دوستانہ رویوں کا ہونا بے حد ضروری ہے رویہ جتنا اچھا ہوگا زمین کی زرخیزی اتنی متناسب ہوگی۔ مصنوعی ماحول، منفی سوچ اور دوغلے رویے ذہن کو زرخیزی نہیں پہنچاتے لہذا بچوں کی بہتر تربیت کے لئے جب تک والدین اپنی ذات اور رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک زمین زرخیز نہیں ہو گی
دنیا کے تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد پڑھی لکھی، مہذب اور اچھی شخصیت کی مالک ہوں، والدین چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کے روزمرہ معمولات اور زندگی سے آشنا ہیں ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ کیسے؟ کیونکہ انٹرنیٹ کے بے تحاشہ اور غیر ضروری استعمال سے بچوں کی انٹرنیٹ اور موبائل سرگرمیوں کا علم رکھنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے ہے گھر میں رہتے ہوئے بھی والدین سے دوری اور انٹرنیٹ سے دوستی مستی اور کم عمری میں موبائل فون کا استعمال اور اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت ہی دراصل ہماری نسل کی تباہی کا باعث بن رہی ہے ہے اس عمل سے بچوں میں احساس کمتری، جذباتیت بلوغت سے پہلے یہ اخلاقی انحطاط اور صحت مند سرگرمیاں نہ ہونے سے سے تنگ نظری، عدم برداشت ، انتہا پسندی کا رجحان اور صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ منفی جذبات عام ہونے سے سے اکثر بچے اخلاقی جرائم میں بھی ملوث ہو رہے ہیں۔
طلبہ اور طالبات کے اندر سر قائد کے اوصاف پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہے قائد اعظم کا فرمان "ہم جتنی زیادہ تکلیفیں, قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنے ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم بن کر ابھریں گے اس قول کی مناسبت سے والدین کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنی اولاد کی محض تعلیم و تربیت اچھے انداز میں کریں بچوں کی غذائی ضروریات کا ہمیشہ خیال رکھیں لیکن بے جا خواہشات تو کبھی پورا ہونے نہ دیں۔
اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت وقت کے ساتھ انہیں اچھا لباس، متوازن خوراک، بہتر رہائش اور ایک صحت مند ماحول فراہم کرنا بنیادی طور پر والدین کے فرائض میں شامل ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ یہ کوشش کبھی مت کریں کہ ان کے لیے دولت، جائیداد، پلاٹ، بڑے گھر،مہنگی گاڑیاں،ایئر کنڈیشنرز اُنھیں عملی زندگی میں بیکار کر دیں گی اور زندگی کے مددجزر کے لحاظ سے وہ مشکل حالات کو کبھی خندہ پیشانی سے قبول نہیں کریں گے جبکہ زندگی میں مشکلات کا مقابلہ پوری جوانمردی، ہمت، حوصلہ اور صبر سے کرنا ہوتا ہے
معاشرے میں ہر شخص ذمداریوں کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی امانت سنبھالے ہوئے ہے اگر والدین اپنی امانت کا پاس رکھتے ہوئے اپنی عام داری پوری نہ کریں تو ان کی نااہلی اور غفلت کا خمیازہ اولاد بھگتتی ہے اور ان کی تربیت میں کمی کا خمیازہ پھر پورا معاشرہ سہتا ہے
حقوق العباد اور تربیت کے اعتبار سے والدین پر یہ لازم ہے کہ وہ جب تک نوجوانوں کے اندر زندگی کی اعلی اقدار اپنانے کی تڑپ پیدا نہیں ہو گی زندگی جمود سے باہر نہیں نکل سکے گی ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تعلیم کا مقصد محض معلومات فراہم کرنا نہیں بلکہ انسان کے تمام پوشیدہ صلاحیتوں کو فطری جذبوں کے ساتھ بیدار کرنا اور پھر انھیں نشوونما دینا ہے یعنی انسان جو کچھ کرتا ہے وہ کسی تاثر اور جذبے کی بدولت کرتا ہے، بچوں کو روبورٹ کی مانند زندگی گزارنے کے بجائے صحت مند فطری جذبوں کے اظہار کے لئے کھیل اور تفریح اور غیر نصابی سرگرمیاں کے لیے بھرپور مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بچوں کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ اور خوبصورت لہجے میں بات کریں کیونکہ ایک پرسکون لہجہ سننے والے کے ذہن میں زرخیزی لاتا ہے۔
بچوں کی ذہنی و جسمانی تندرستی کے لیے صحتمند ماحول،متوازن غذا روزانہ کھیل و تفریح اور جلد سونے اور جاگنے کے اوقات اور بچوں کے دوستوں اور دن بھر کی مصروفیات کا پورا خیال رکھیں۔
ہر ایسا مشغلہ جو نیا ہو یا پرانا، ہمارے روزمرہ کاموں کے اسٹریس کو کم کرتا ہے اور ہمارے خون اور دماغ میں متحرک ہارمونز کی تعداد کو معتدل اور مناسب رکھتا ہے اور ایک متوازن اور خوشگوار زندگی کا ضامن بنتا ہے بچوں کو معصومیت کے لحاظ سے کارٹون، ڈرامے اور فنون میں دلچسپی کے ساتھ اپنی اولاد کو صحت مند مشاغل کی طرف راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
اولاد کو قومی مسائل جیسے ماحولیات و آبی وسائل کا تحفظ، صحت و صفائی، کرپشن سے بچاؤ اور معیاری تعلیم کے حصول اور ملکی ترقی کے لئے ان کے اندر تعمیری سوچ پیدا کریں
@SmPTI31