والدین کی زمہ داری اور نسل نو . تحریر : سید غازی علی زیدی

اولاد ایک امانت
والدین کی غفلت
سنگین خیانت
غلط صحبت
سخت جہالت
بچوں کی تربیت
نسلوں کی عافیت

پاکستانی معاشرے میں تعلیم و تربیت، تہذیب و شائستگی، تمیز وآداب جیسے الفاظ و اصطلاحات متروک ہوتے جا رہے ہیں۔رات دن زمانہ خراب ہے کی گردان کرنے والے بھول گئے کہ زمانہ نہیں انسان میں خرابی آ چکی ہے۔ جب آپ اپنی اولاد کو وراثت میں جھوٹ، کینہ، بغض، حسد اور لالچ جیسی دولت دیں گے تو وہ درندے بنیں گے انسان نہیں۔ وہ انسان جو کہ اشرف المخلوقات قرار پایا تھا اسے مال حرام اور سیاہ کاریوں نے اسفل السافلین کے درجے پر لا پٹخا۔ لیکن صد افسوس کوئی ملال نہیں کوئی رنج نہیں۔ ہم نفس کے غلام بنے، بنا سوچے سمجھےشیطانیت کی راہ پر بگٹٹ بھاگے جارہے۔ زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کر لیں تاکہ اولاد کو کوئی تنگی نہ اٹھانی پڑے۔
کونسی اولاد؟ وہ جو والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہاؤس میں جمع کرادیتی کہ والدین کی کھانسی کی آواز ان کے آرام میں مخلل ہوتی۔ یا وہ اولاد جس کی حرام کاریوں کی وجہ سے ماں باپ بڑھاپے میں جیل کی چکی پیستے اور بھری عدالتوں میں رسوا ہوتے۔ یا وہ اولاد جو خود تو حرام موت مر جاتی لیکن ماں باپ کو کلنک کا داغ لگا جاتی اور تا عمر بوڑھے والدین اولاد کی بے راہروی پر دنیا کے طعنے سنتے۔ ایسے میں برسوں میں کمائی گئی عزت و مرتبہ خاک میں مل جاتا اور رہی بات مال و دولت کی تو جب اولاد ہی نہ رہی تو ایسی دولت کا کیا فائدہ؟
حرام کا لقمہ اولاد کو کہلاتا انسان بھول جاتا کہ یہ وہ آگ ہے جو نہ صرف دنیا میں جلا کر خاکستر کر دیتی بلکہ آخرت کا وبال بھی ہے۔ سونے چاندی کا نوالہ نہیں تھوہر کے کانٹے ہیں جو اولاد کے حلق میں پیوست ہورہے۔ یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔ جیسے پیشاب کا ایک قطرہ سارا پانی نجس کر دیتا ویسے ہی جان بوجھ کر کھایا گیا ایک نوالہ حرام انسان کا جسم وروح پلید کردیتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
"بیشک انسان خسارے میں ہے”

دنیا میں قابلیت کے جھنڈے گاڑتا، جاہ و حشمت کی بناء پر ناقابل تسخیر بنا انسان بھول جاتا کہ اس کا خمیر کھنکھناتی مٹی سے اٹھا ہے۔ اس کی اوقات ایک گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں۔ جس جسم کی خوبصورتی پر اکڑتا، سانس بند ہو جائے تو وہی جسم ناقابل فراموش بدبو دینے لگتا ہے۔ جس اولاد کیلئے تمام عمر مال اکٹھا کیا اسی اولاد کو قبر میں اتارنے کی جلدی ہوتی تاکہ بٹوارہ جلد از جلد ہوسکے۔ برسوں گزر جاتے نہ کوئی قبر پر پھول ڈالتا نہ فاتحہ پڑھتا۔ اب تو اللّٰہ کے فضل سے قلوں کی جگہ موم بتی رتجگے نے لے لی ہے پہلے مولوی کو پیسے دے کر دنیا دکھاوے کو ہی سہی قرآن خوانی تو ہو جاتی تھی اب بھلا ہو جدیدیت و لبرل ازم کا اس سے بھی گئے۔ اور ہمارے معاشرے میں اگر نقالی کی رسم نہ پوری کی جائے تو معاشرہ طعنے دے دے کر مار دیتا سو یہ رسم بد خیر سے اب امراء و زعماء کی بدولت حکومتی سطح پر منتقل ہوچکی ہے۔ فنکارسے لیکر ادیب تک، سیاستدان سے لیکر طبیب تک کوئی فوت ہوجائے تو کینڈل لائٹ ویجل از حد ضروری ہے۔

جنریشن گیپ ختم کرنے کے چکرمیں تعلیم یافتہ والدین نے اولاد کے دل سے ادب واحترام، ڈر و خوف ہی ختم کر دیااور پھر یہ گلہ کہ آج کل کی اولاد زبان دراز و بدتمیز ہے۔ ارے بھائی اولاد کو سر پر تو آپ نے خود چڑھایاہے۔ ہر جائز ناجائز فرمائش پوری کر کے، منہ سے بات نکلنے سے پہلے مطلوبہ چیز مہیا کر کے، دین و مذہب سے دور کر کے، تو اب گلہ کیسا اور کس سے بھلا؟ دنیاداری سکھانے کے چکر میں دین کو پس پشت ڈال دیا۔ سکول کیلئے اٹھنا لازمی لیکن فجر کیلئے ابھی بچہ ہے کہہ کر غفلت برتنا۔ قبر میں پہلا سوال نماز کا ہونا اکنامکس کا نہیں۔ نرسری میں لہک لہک کر پوئم پڑھنا تو آ جاتی لیکن سورہ اخلاص وزیر بن کر بھی صحیح نہیں آتی۔
بچے کا دماغ تو کورا کاغذ ہوتا اس کو جو سکھاؤ نقش ہو جاتا۔ لیکن اگر سکھانے والے خود میں مگن ہوں تو بچے کا بہک جانا لازم ہے۔ اپنے سماجی روابط استوار کرتے والدین جب اولاد سے بے اعتنائی برتیں تو کبھی کوئی خانساماں تو کبھی ڈرائیور یا کوئی دور و نزدیک کا رشتہ دار بچوں کو ورغلا کر بچپن تباہ کر دیتا اور بچے کبھی خوف سے تو کبھی لاعلمی کےسبب کسی کو بتا نہیں پاتے بس تاعمر خود ساختہ احساس ندامت کا شکار رہتے۔

اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر۔
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

ہم اپنے معاشرے کی کیا بات کرتے فرانس جیسے ماڈرن ملک میں جب "می ٹو” کی مہم چلی تو بیشمار لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنی آپ بیتی شیئر کی کہ کیسے ان کو بچپن میں انکے قریبی لوگوں نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جس کا سب سے زیادہ قصوروار انہوں نے اپنے والدین کی غفلت کو ٹھہرایا۔

آج جب ہم نوجوان نسل کی بے راہروی پر سیخ پا ہوتے ہیں تو اس کے محرکات کو نظر انداز کرنا جہالت ہے۔ جدیدیت کے چکر میں والدین آپنی اولادوں کو ہائی فائی سکولوں میں داخل کرا دیتے جہاں کی فیس تو لاکھوں میں لیکن تربیت ٹکوں میں بھی نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تمام بڑے اسکولوں میں منشیات فروشی اپنے عروج پر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کبھی ویلنٹائن ڈے تو کبھی میوزیکل نائٹ کے نام پر نوعمر لڑکے لڑکیوں کو نچایا جارہا۔ کبھی تعلیمی دوروں پر لے جاکر مکمل جنسی آزادی دے دی جاتی تو کبھی عشق میں ناکامی پر خودکشی تک کی نوبت آ جاتی۔ اور والدین کو اس وقت ہوش آتا جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ اور باپ کی شخصیت بچے کا پہلا آئیڈیل ہوتی۔ لیکن جب والدین ہی بے توجہی برتیں تو بچے کی شخصیت کا مسخ ہونا خارج از امکان نہیں۔ بلاشبہ قوموں کی ترقی کا دارومدار نوجوان نسل پر ہوتالیکن اگر بزرگوں کی تربیت میں ہی نقص ہو تو کیسی تربیت اور کیسی ترقی۔ خالی دینی یا انگریزی تعلیم کے رٹوں کا کیا فائدہ جب تربیت صفر ہو۔

تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

ہر طبقے کے نوجوانوں میں جرائم کی بڑھتی شرح تشویشناک ہے۔ نشہ، چوری، ریپ، گھر سے بھاگنا اور خودکشی جیسے خطرناک جرائم ہمارے بچوں کو تباہ کررہےاور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ آج کے پرفتن دور میں اسلامی تعلیمات کی پیروی کر کے ہی ہم اپنے بچوں کو مضبوط بنیاد، بہترین تربیت، اچھا اخلاق اور اعلیٰ پائے کی دینی و دنیاوی تعلیم فراہم کرسکتے اور یہ ایک واحد راہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی نسلوں کو سنوار سکتے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ریاست مدینہ میں ڈھال سکتے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے
"کوئی باپ اپنی اولاد کو حسن ادب اور اچھی تربیت سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں دے سکتا”

@once_says

Leave a reply