واقعہ لاہور کے مضمرات تحریر عبدالعزیز صدیقی ایڈوکیٹ
گزشتہ دنوں مینار پاکستان لاہور میں ایک ٹک ٹوکر لڑکی کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ واقعہ قابل مذمت ہے لیکن اس بات پر یقین کرنا میرے لئےانتہائی مشکل ہے۔ دل و دماغ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ چار سو مرد ہوں اور سب کے سب ایک ہی کام میں لگے ہوں۔ مشاہدہ میں تو یہ آتا ہے کہ آج بھی اگر ایک لڑکی کو دو لڑکے راہ چلتے چھیڑ دیں تو دو سو مرد ان دو لڑکوں کی ٹھکائ کرنے فوراجمع ہو جاتے ہیں۔ کوئی خاتون اگر مذاق میں بھی یہ کہہ دے کہ اس لڑکے نے مجھے چھیڑا ہے تو بنا تصدیق کئے باقی تمام مرد اس لڑکی کی بات کو سچ مانتے ہوئے لڑکے پر اپنے ہاتھ صاف کرنا شروع کر دینگے اورجب تک پولیس نہ پہنچ جائے وہ بے چارہ ہجوم سے پٹتا ہی رہے گا۔
ہم وہ جزباتی لوگ ہیں جو کبھی بھی بنیادی وجہ کو تلاش نہیں کرتے،جڑ نہیں پکڑتے شاخوں پرچھولتے رہتے ہیں ۔ اگر چار سو مرد حضرات نے ایسا کیا ہے تو ہرگز ان کی طرف داری نہیں کی جاسکتی بلکہ ان کا یہ عمل انتہائ قابل مزمت ہے اور یہ بات کہنے بھی کوئ عار نہیں کہ وہ لوگ مرد تھے ہی نہیں مرد ہوتے تو ایسا کام نہیں کرتے۔
لیکن دوسری جانب یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں؟ یہ ٹک ٹوک اور مختلف لائیو سٹریمنگ کی ایپلی کیشن کیسے عورت کو ایک نمائشی آلہ بنائےچلی جارہی ہے اور عورت ہے کہ نمائش بنتی جا رہی ہے۔چندلائکس شیئر اور فالوورز کے چکر میں سر راہ ، پارک میں ، چلتی سڑک پر ، مردوں کے ہجوم میں یہ دوپٹہ اتار دینا ، باریک اور تنگ لباس زیب تن کر کے رقص کرتے ہوئے اپنی ویڈیو ریکارڈ کرانا تو پھرسستی شہرت حاصل کرنے کی چاہ میں آپ کو عزت سے ہاتھ تو دھونا ہی پڑے گا۔اگر آپ حریم شاہ بنیں گی تو مولوی عبدالقوی تو پھر مل ہی جانے ہیں۔ شہد کو کھول کر رکھنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ مکھیاں اس پر نہ بیٹھیں کیسے ممکن ہے۔گھر کی دیوار کو اگر چھوٹا رکھا جائے گا یا دروازہ کھلا رکھا جائےگا توچوری تو ہو گی ہی۔
وہ مردبھی قابل لعنت ہیں جو اس گندے فعل کے مرتکب ہوئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کیلئے بھی ۔۔اس ٹک ٹوک اور اس جیسی ایپلی کیشن نےتو اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ جن خواتین کو گھر یا خاندان کا کوئی ڈر ہے تو وہ صرف اپنے ہاتھ یا پیر دکھا کر بکواس اور بےہودہ جملوں کا استعمال کرلیتی ہیں ۔ کبھی آپ ان لڑکیوں کی ان ویڈیوز پر موجود کمنٹس پڑھ لیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے رہ جائیں۔یہ سب کیا ہورہا ہے؟ عورت کی اتنی تزلیل کہ وہ ایک مارکیٹنگ ٹول بن کے رہ جائے۔۔ جس نے آنے والی نسل کو پالنا ہے اپنی پرورش سےہماری اقداراور رواج کو نئ نسل میں منتقل کرنا ہے ۔
کیا ہے یہ سب ؟ کس طرف جا رہے ہیں ہم؟ کیا ہم خود ہی اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور فریسٹریشن کو جنم نہیں دے رہے؟ بڑے بڑے شاپنگ مال ہوں یا کوئی بھی جگہ ، مارننگ شو ہو یا پھر کوئی پروگرام ۔ عورت کو ایک ٹول کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔۔ یہ سفر کہاں کا ہے ؟کہاں ختم ہو گا؟پتہ نہیں !
اچھا پھر ہوتا کیا ہے کہ مبینہ طور پرآپ ایسی سستی شہرت تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن بعدمیں ایسے واقعات ملک دشمن عناصر کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو ایسے واقعات کو نمک مرچ کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہمارے جزباتی دوست بناء سوچے سمجھے اس ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن جاتے ہیں ان کو پتہ بھی نہیں چل پاتا کہ وہ کتنی خوبصورتی سے دشمن کی سازش کا شکار ہو گئےاورخود ہی سوشل میڈیا پردشمن کے خلاف چلنے والے ٹرینڈ ختم کرکے اپنے ہی ملک کے خلاف ٹرینڈ شروع کر دیتے ہیں کبھی سوچئے گا کس کمال مہارت سے دشمن نے آپ کے ہی ہاتھوں موضوع بدلوا دیا اور پھر ایسی کیمپین چلائ کہ لگاپاکستان سے غیرتمند مرد ہی ختم ہو گئے ہیں۔ جب کہ آپ کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ ہمارا معاشرہ آج بھی دیگرمعاشروں سے لاکھ درجے بہتر ہے ۔ یہاں آج بھی بیٹی اور بہن کی عزت ہے ۔ اس کے محافظ موجود ہیں ۔
میری رائے میں اسلامی قانون کا نفاذ ہی ان مسائل کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے ۔اس کام میں تو ابھی وقت لگے گا لیکن ان ایپس پر تو فوری پابندی عائد کی جاسکتی ہے جو اخلاقیات کے جنازے نکال رہی ہیں اورپابندی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ذہن سازی بھی ہونی چاہئے تاکہ ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کچھ کرنے کیلئے کوئی مثبت راستے مل سکیں اور وہ اس طرح کی ایپس وغیرہ اور سستی شہرت سے دور رہ سکیں ۔ لیکن یہ سب ہو گا کیسے ہمیں توصرف شور مچانے کی عادت پڑ چکی ہے ۔۔
اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے پر رحم کرے ۔ آمین
@Azizsiddiqui100