واقعۂ یادگارِ پاکستان اور شور کا طوفان…؟ تحریر:جویریہ بتول

0
27

اقبال پارک کا گراؤنڈ وہ عظیم یادگار ہے کہ جہاں اسلامیانِ برصغیر نے جمع ہو کر آزاد وطن کے حصول کی انمٹ داستان رقم کی تھی…یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل پبلک مقام ہے… اس سے وابستہ وہ غیر متزلزل ارادے،نعرے،عزائم اور کردار تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا تھا اور الحمدللّٰــــہ آج ہم ایک آزاد وطن کے باسی ہیں…
اُسی گراؤنڈ سے متعلقہ ایک واقعہ سوشل میڈیا پر گردش میں ہے…واقعی ایسے واقعات چاہے کچھ بھی پسِ منظر رکھتے ہوں کسی بھی معاشرے کا منفی امیج ہی تصور کیے جاتے ہیں…
ایک ٹک ٹاکر خاتون اور سینکڑوں مردوں کی طرف سے رد عمل نے ہر ذی شعور کا سر شرم سے ضرور جھکایا ہے…اور یہ سب تربیت کی کمی کا گھناؤنا کھیل ہے…افسوس کی بات یہ ہے کہ اجتماعی طور پر بھی ہم اخلاقیات کے بلند معیار کو کھوئے جا رہے ہیں…انفرادی طور پر تو ہر ایک کی صورت حال جسے ذبح کرو،وہی لال ہے والی سے مختلف نہیں ہے لیکن اجتماعی طور پر اخلاقی گراوٹ ایک گھٹیا سوچ کی عکاس بن جاتی ہے…
سیدھی اور صاف سی بات کی جائے تو اس کا واحد حل صرف اسلامی نظام اور قوانین کا نفاذ ہے جو ہر ایسی گھٹیا فکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے لیکن چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ معاشرہ مختلف النوع ذہنیتوں کے مجموعے کا نام ہے… اسلام تو مسلمان مرد و خواتین کو غصِ بصر اور عزتوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے…
تو جو لوگ ان تعلیمات کے قائل نہیں،اپنا مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں…اپنا طرزِ رہن سہن اپناتے ہیں…اپنی پسند کا اخلاق باختہ لباس زیب تن کرتے ہیں…تو پھر کیا کیا جائے؟
یہ سوال واقعی اپنی جگہ اہم ہے لیکن معاشرے سے برائی کے خاتمہ کے لیے پہلی بات تو قوانین کا فوری اطلاق اور عمل ہونا چاہیے جس کی ہمارے معاشرے میں رفتار انتہائی مایوس کن رہی ہے…نمبر دو مرد و خواتین معاشرے کا حصہ ہیں،سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کے لیے گھروں سے باہر جاتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ایسا قطعاً نہیں ہوتا…سارے کا سارا معاشرہ بے حس نہیں ہے…گردشِ حیاء ابھی رگوں میں باقی ہے…
مسلمانوں کے لیے تو ایک زبردست نفسیاتی حل بتایا گیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو…پھر کوئی پاس سے ناچنے گانے والی گزر رہی ہو یا مجرے کوٹھے والی یقینِ کامل ہے مرد کی فطری جبلت کو متاثر نہیں کرے گی…اور اگر مرد نگاہیں اُٹھا کر ہی چل رہا ہے تو ایک باپردہ اور باحیا انداز میں چلتی کوئی بھی خاتون بحفاظت بچ جائے گی…یہ تو ایک زبردست نسخہ ہمیں ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتا دیا گیا ہے اور اِسی پر عمل آج بھی فلاح کا باعث ہے…!!!
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اس سے اُلٹ سوچ و کردار کا طبقہ کہیں نظر آئے…
آپ کسی بازار کا ہی رُخ کر لیں…کسی بھی ادارے اور تعلیمی اداروں میں چلے جائیں ایسے انداز اور نمونے آپ بآسانی دیکھ سکتے ہیں تو کیا کسی کے انداز،لباس اور کردار کا پسِ منظر دیکھ کر انہیں چھیڑا جایا جانے لگے گا…یا انہیں ٹارگٹ کیا جائے گا…؟
یقیناً ہر گز نہیں…!!!
یہ واقعہ بھی ایسی ہی نیگیٹیویٹی کی مثال بن رہا ہے اس کے پیچھے محرکات جو بھی ہوں لیکن اُس ہجوم اور مجمع میں کوئی بھی رجل رشید نہیں تھا…جو اس واقعہ کو وقوع ہونے سے روک دیتا…؟
عورت بہر حال عورت ہے…اِسے کھلونا اور سوفٹ ٹارگٹ سمجھ لینا بھی ایک معاشرتی بے حسی ہے… ایسے واقعات کے علاوہ بھی تعلیمی اداروں میں ہوس ناکیوں کا شکار کوئی بنتِ حوا ہو…یا معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے واقعات…یہ سبھی معاشرے کا المیہ اور سیاہی و وبال ہیں…
اصل محرک تربیت،سوچ اور معاشرتی اقدار ہوتی ہیں…
جب ذہنوں میں گند بھر جائے تو لباس اور پردہ پوشی کی حدود بھی درندہ صفت انسان کہیں نہ کہیں روند ڈالتے ہیں…ہمیں اصل ضرورت تربیت کی اور معاشرے میں زہر کی طرح پھیلتی اس منفیت کو روکنے کی ہے… وہ کوئی سا بھی فورم ہو کوئی سا بھی مقام ہو…آج کے نوجوان کل کے والدین ہیں…اور آنے والی نسلوں کا مستقبل انہی کے کردار پر منحصر ہے…
نیز حدود اور قوانین کا اطلاق فرضِ اوّل ہونا چاہیے…!
حکومت اور عدلیہ کی جانب سے خواتین کے پردہ اور ذمہ داریوں کے حوالے سے احکامات صادر ہوں…
پھر مجرم چھوٹا ہو یا بڑا اُسے اپنے کیے کا ڈر ہو…شکنجہ کسے جانے کا خوف ہو تو ہی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے…
سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں اور آزادی جو بے حیائی اور اخلاق باختگی کی ترویج کا باعث ہیں،ایک اسلامی مملکت میں انہیں مکمل بین کیا جانا چاہیے…یہ وقت کی ضرورت اور آنے والی نسلوں کے کردار و اخلاق کی بقاء کے لیے ازحد ضروری ہے…!
پبلک اور مقدس مقامات پر جانے اور سرگرمیوں کے حوالے سے باقاعدہ اصول و ضوابط طے ہوں…بے حیائی کی عکس بندی کرتے مناظر اور سیلفیوں کی چنگاریاں جب آتش فشاں بن جاتی ہیں تو ہاتھ سروں پر رکھ کر بین شروع کر دیے جاتے ہیں اور ہر ایک ہی خود کو معصوم اور مظلوم جتاتا ہے…یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ایسے ناچ اور مجرے دیکھنے کے لیے آنے والے شرفاء نہیں بلکہ ہمیشہ شریر ذہن ہی ہوا کرتے ہیں…جن کی وجہ سے پورے معاشرے کے شرفاء پر انگلیاں نہیں اٹھائی جا سکتیں…
ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں…اور ہر واقعہ میں کئی کردار ہوتے ہیں…ان سب چیزوں پر غور اور عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے…
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عورت تو وہ ہوتی ہے جسے میدانِ جنگ میں بھی قتل نہ کرنے کا استثناء ملا…عورت کی عزت اور رہ نمائی چاہے وہ کہیں بھی ہو کوئی بھی ہو…اس طرح کی جائے کہ وہ ایوان ریڈلے سے ہمیشہ کے لیے مریم بن جائے…ماضی قریب کی یہ شاندار مثال ہم سب کے لیے ایک سبق ہے…کوئی بھی محرک اس صنفِ نازک کے خلاف ایسا اقدام نہ اُٹھوائے جو وقتی ہی سہی ایک منفی امیج اور ایشو بن جائے…اور لبرل مافیا ہمیں عورت کی تعظیم اور حقوق کے درس دینے کے لیے کوؤں کی طرح چلچلانے لگے…
عورت بھی اپنی حدود اور ذمہ داریوں کو گہرائی سے سمجھے اور جو یہ نہیں سمجھتیں تو میرے معاشرے کے مرد کی حیا اس قدر مضبوط ہو کہ کسی اور سوچ اور طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورت کا لباس یا فیشن اُس سے حیا کی چادر نہ چھین سکے… اور آئے روز کے ایسے طوفانوں سے میرا یہ چمن محفوظ کہلائے…آمین…!
===============================

Leave a reply