وزیروں کو ٹماٹر اور انڈے کیوں پڑ رہے ہیں.،تحریر: نوید شیخ

0
33

قومی سیاست کا بڑا المیہ محاذ آرائی اور بداعتمادی ہے ، جب ایک سیاسی فریق دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے سیاسی تعصب، نفرت ، الزام تراشی اور منفی طرزعمل کا مظاہرہ کرے تو اس کا نتیجہ انتشار کی صورت میں ہی پیدا ہوگا۔

۔ آج پھر آزاد کشمیرمیں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مریم نوازنے خوب تنقید کے نشتر چلائے ہیں اور کہا ہے کہ کشمیر بیچنے کی سازش امریکہ میں بیٹھ کر رچائی گئی ، کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال کر 2 منٹ خاموشی کا کہتے ہیں۔ یہ جیت کر کشمیر کے پہاڑ بھی آئی ایم ایف کو بیچ دیں گے ۔ پلندری میں تو عمران خان پر یہ بھی الزام لگا دیا کہ وہ آزاد کشمیر کو ایک نیا صوبہ بنانا چاہیتے ہیں ۔ پھر عمران خان کو دھمکی دی کہ سن لیں ان کا یوم حساب قریب ہے ، آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام ان سے حساب لیں گے۔ ۔ میری نظر میں گندی زبان والے لیڈر اور حکومتی وزیر کشمیر پہنچے ہوئے ہیں اور کشمیر کا ماحول خراب کررہے ہیں۔ کیونکہ زبان درازی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ۔ ایسا لگتا ہے کہ آزادجموں وکشمیر انتخابی مہم ’جگت بازی‘ اور ’گالم گلوچ‘ کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

۔ کیونکہ ہر مسئلے کی زمہ دار حکومت ہوتی ہے تو شروع حکومت سے ہی کرتے ہیں ۔ علی امین گنڈاپور الیکشن مہم کے آغاز میں ہی تنازعات کی زد میں آگئے تھے جب ان کی مبینہ طور پر پیسے بانٹنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد وزیر موصوف اپنی تقریر میں نامناسب الفاظ کے استعمال پر بھی خبروں کی زینت بنے رہے۔ پھر ان کی جانب سے
500
ارب روپے کے فنڈز کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، جو پی ٹی آئی الیکشن جیتنے کی صورت میں وہاں کی حکومت کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

۔ آزاد کشمیر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے سابق وزیراعظم ذوالقفار علی بھٹوکو غدار اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ڈاکو قرار دیا۔

۔ یوں یہ بدزبانی کشمیرسے پارلیمنٹ تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ روز سینیٹ میں جو زبان استعمال ہوئی جو ہنگامہ ہوا ، جو الزامات لگے وہ باعث شرمندگی ہیں ۔
علی امین گنڈا پور کی جانب سے بھٹو کو غدار کہنا ایک نیا پنڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہے ۔

۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت تصادم کی نئی راہ کھول رہی ہے ۔ سینیٹ میں اپوزیشن بینچز سے جو نعرے لگے وہ بھی اس مقدس ایوان کی بے حرمتی ہے اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ۔

۔ اپوزیشن کی بات کریں تو عمران خان کو بزدل کہا جارہا ہے ۔ ن لیگ تو آزاد کشمیر کے اندر بھی دھاندلی کا عندیہ دے کر۔ ان الیکشنوں کو بھی متنازعہ کرنے پر لگی ہے ۔

۔ مریم نواز بھرپور انتخابی مہم تو چلا رہی ہیں۔ مگر جیت کے چانسز کم دیکھائی دیتے ہیں ۔ جو کچھ وہ روزانہ ارشاد فرما رہی ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمران خاں نے کشمیر کو بیچ ڈالا۔ صرف ان کی جماعت ہی طوفان میں ہچکولے کھاتے کشمیریوں کو ساحل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے ان کے امیدوار فاروق حیدر نے فرمایا کہ مریم ہی کشمیر کو آزاد کرائیں گی۔

۔ جبکہ مظفر آباد کو فتح کرنے کے لیے عمران خان کی حکمتِ عملی وہی پرانی ہے، جو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی تھی۔ کہ برادریوں کی حمایت رکھنے والے کروڑ پتیوں کو ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ وہ کر بھی ایسا ہی رہی ہے ۔

۔ اب اس تمام دھما چوکڑی میں عمران خاں کشمیر کا رخ کرنے والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
۔ کیا وہ بھی بلاول اور مریم کی روش اختیار کریں گے؟ انہی پہ گولہ باری کریں گے۔ اگر وہ اس بچگانہ کھیل کا حصہ ہو گئے تو مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کون لڑے گا؟
۔ ٹارچر سیل میں پڑے ہزاروں نوجوانوں اور کمسن بچوں کا، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کہاں ہیں اوران پہ کیا بیت رہی ہے۔

۔ ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ
۔ انتخابات کہیں بھی ہوں؟
۔ حکومت کوئی بھی ہو؟
۔ اپوزیشن کتنی ہی نالائق کیوں نہ ہو؟

۔ سیاسی جماعتیں کتنی ہی پارسا، قابل اور جمہوریت پسند کیوں نہ ہوں انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے پر تنقید کرنا، ایک دوسرے پر مختلف طرح کے الزامات عائد کرنا اور تابڑتوڑ حملے کرنا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔

۔ لیکن اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے لے کر اپوزیشن کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت تک جو الزامات ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہیں اور جس گھن گرج کے ساتھ مخالفین کو کشمیر فروش ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔

۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کو آج بھی اپنی تاریخ اور تحریک کا اچھی طرح علم ہے۔ تاہم آج پاکستان سے ووٹ مانگنے کے لئے آزادکشمیر جانے والے لیڈر کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر سمجھانے اور آزادی حاصل کرنے کے گر بتانے سے زیادہ پاکستان میں اپنے مخالفین کو غدار ، ملک دشمن، چور، ڈاکو، کرپٹ وغیرہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔

۔ 25
جولائی کو ہونے والے الیکشن میں کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟
اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ تاہم تحریک انصاف جس نے پچھلے الیکشن میں صرف دو سیٹیں جیتی تھیں، اب
۔۔۔ تبدیلی فارمولہ ۔۔۔
کی رو سے سب سے مقبول پارٹی ہے۔

۔ پی ٹی آئی نے عوامی رابطہ مہم پراب تک اتنا زور نہیں لگایا جتنا دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی اور الیکٹ ایبلز کو توڑنے میں لگایا ہے ۔

۔ اچھا یہ بھی ایک تاثر ہے کہ ن لیگ کے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے حقیقتاً آزادکشمیر کو مالی خود مختاری دلانے سمیت کئی اچھے کام کئے ہیں جن کے زور پر وہ پی ٹی آئی کو جھٹکا دے سکتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی میں بھی کئی تجربہ کار لوگ موجود ہیں جو اپنی سیٹیں جیت سکتے ہیں مگر پانسہ پلٹنے کے لئے اسے مزید محنت کرنا ہوگی۔

۔ دوسری جانب حکومت کا ایک مشن شہباز شریف ہے ۔ اس حوالے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر حکومت کا خصوصی ٹارگٹ ہیں ۔ جبکہ حکومتی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ان کے خلاف شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ نااہلی سے بچ نہیں سکیں گے ۔ مسلم لیگ( ن) کا کہنا ہے کہ حکمران اپنی عدم کارکردگی کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔ شہباز شریف چونکہ حکومت کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں اس لئے انہیں خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

۔ دیکھا جائے تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ احتساب ہے۔ آزادانہ اور شفاف احتساب نہ ہونے کے باعث اول تو یہ عمل آگے نہیں بڑھ رہا اور دوسری طرف یہ تاثر عام ہوتا نظر آتا ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں ، خصوصاً اپوزیشن تک محدود ہے۔ دیکھا جائے تو نیب نے احتساب کے لفظ کو ایک لطیفہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔

۔ اب اس ساری مارا ماری اور الزامات کی جنگ میں انتخابی اصلاحات کا معاملہ سیاسی طور پر خاصا ٹیڑھا ہوگیا ہے ۔ پہلے کچھ اُمید پیدا ہوچلی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اختلافات کم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پر اب روز بروز تلخیاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔

۔ ابھی تک جماعت ِاسلامی کے سوا تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی انتخابی اصلاحات کی بیشتر تجاویز کو مستردکیا ہے۔ وہ نہ الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹنگ کے حق میں ہیں اور نہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے پر راضی ہیں ۔
کیونکہ تقریبا اسّی لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کی بھاری اکثریت حکومتی جماعت تحریک انصاف کی حامی سمجھی جاتی ہے۔ یوں دس پندرہ لاکھ اوورسیز نے بھی اگلے عام انتخابات میں ووٹ ڈال دیا توتیس سے چالیس انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو فائدہ ہوگا۔

۔ دوسری طرف آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین قابل ِقبول نہیں۔ حکومت کی مجوزہ ترمیم کے تحت ووٹر فہرستیں بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کی بجائے نادرا کو مل جائے گا۔۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن اسکی مخالفت کررہے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس اقدام سے الیکشن کمیشن بے اختیار ہوجائے گا۔

۔ یوں انتخابی اصلاحات کا معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ صاف ستھرے الیکشن پر جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ بدقسمتی سے ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں انتخابی عمل میں شدید دھاندلی کی شکایت کرتی ہیں۔ کبھی ووٹنگ سے پہلے دھاندلی کرنے کا شور مچتا ہے۔ کبھی ووٹنگ کے بعدپولنگ اسٹیشن پر گنتی اورریٹرننگ افسر کے دفتر میں نتائج مرتب کرنے میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

۔ ہمارا سیاسی کلچر ایسا گلا سڑا ہے کہ کوئی طریقہ اختیار کرلیا جائے شکست کھانے والا اپنی ہار تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان میں مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ الیکشن صاف ستھرے اور منصفانہ ہوں بلکہ دشواری یہ ہے کہ اس ملک کے سیاستدان ہر صورت حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔۔ ہمارے سیاستدان جاگیردارانہ اور قبائلی مزاج کے حامل ہیں ۔ انکا خیال ہے کہ چودھراہٹ اور سرداری ہمیشہ ان کے پاس رہنی چاہیے۔ الیکشن تو محض رسمی کاروائی ہے۔۔ یہ بھی درست ہے کہ عملی سیاست سمجھوتوں اور کچھ لو، کچھ دو کے اُصولوں پر چلتی ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلیے اپنی انتخابی تجاویز میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کی ہر بات کو رَد کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ تمام فریقوں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔ ضروری نہیں کہ الیکشن کے عمل میں بہتری کی تمام کوششیں ایک ہی قانونی ترمیم کے ذریعے نافذ ہوجائیں۔

Leave a reply