ایف اے ٹی ایف اجلاس میں کیا گفتگو ہوئی اورکیا تحفظات ظاہرکیے گئے؟خصوصی رپورٹ

0
26

عالمی واچ ڈاگ کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے ایف اے ٹی ایف اجلاس کے فیصلوں کا اعلان ایک نیوز بریفنگ کے دوران کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی تجاویز پر عمل درآمد کیا ہے تاہم کچھ چیزیں مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان اب بھی زیر نگرانی رہے گا’ اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھرپور پیش رفت دیکھائی ہے لیکن اسے مزید سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مارکس پلیئر کا کہنا تھا کہ ‘وہ تمام اقدامات دہشت گردوں کی مالی معاونت سے جڑے ہیں اور 27 میں سے 3 پوائنٹس کو مکمل طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے’۔

عالمی واچ ڈاگ کے صدر نے پاکستان کی پیش رفت سے متعلق کہا کہ ‘ہم پاکستان پر منصوبے سے متعلق مکمل عمل درآمد کرنے پر زور دیتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ 4 ماہ بعد پاکستان کی جانب سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی تصدیق کریں گے، پاکستان نے اعلیٰ سطح پر ایکشن پلان پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، اس لیے اس وقت پاکستان کو بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

پاکستان کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جن چار شعبوں کی نشاندہی کی گئی وہ یہ ہیں:

1) پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرے کریں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کر کے نہ صرف اس کی تحقیقات کر رہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

2) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انھیں سزائیں ہوں جس سے ان جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہو پائے۔

3) اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشتگردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ انھیں فنڈز اکھٹا کرنے سے روکا جا سکے اور ان کے اثاثوں کی نشاندہی کر کے منجمد کیا جائے اور ان تک رسائی روکی جائے۔

4) پاکستان یہ بھی یقینی بنائے کہ دہشت گردی کی معاونت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں جیسا کہ بینک وغیرہ کو انتظامی اور دیوانی سزائیں ملیں اور اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔

ایف اے ٹی ایف کے جاری اجلاس میں ان چار شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان کو مزید عرصہ گرے لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں۔

Leave a reply