امریکی کس کو ووٹ دیں؟ ٹیکس چھوٹ دینے والے نسل پرست کو یا ٹیکس لگانے والے لبرل کو؟امریکیوں پرکڑاوقت آگیا

0
61

واشنگٹن :امریکی کس کو ووٹ دیں؟ ٹیکس چھوٹ دینے والے نسل پرست کو یا ٹیکس لگانے والے لبرل کو؟امریکیوں پرکڑاوقت آگیا ،اطلاعات کے مطابق امریکا میں ان دنوں صدارتی دنگل اپنے عروج پر ہے۔ اس دنگل میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور اوباما انتظامیہ میں نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن موجود ہیں۔

بائیڈن اور ٹرمپ کی گفتگو کو سنا جائے تو ان دونوں میں بہت زیادہ تلخی نظر آتی ہے۔ پھر اس مرتبہ امریکی صدارتی انتخابات میں اسلاموفوبیا، دہشتگردی کے خلاف جنگ یا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا جیسے معاملات کے بجائے تمام تر توجہ اور بحث امریکا کے مقامی مسائل پر مرکوز ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات میں بحث کے اہم ترین موضوعات کورونا کی وبا پر قابو پانا، صحت کے شعبے کی زبوں حالی، معیشت کی بحالی اور ٹیکس اصلاحات ہیں۔

صدر ٹرمپ سفید فام نسل پرستی کے قائل نظر آتے ہیں اور گزشتہ 4 سال کی پالیسیوں، اقدامات اور بیانات میں یہ جھلک صاف طور پر نظر بھی آتی ہے۔ اسی لیے ان کے مدمقابل جو بائیڈن نسل پرستی کو امریکا کے ہر شعبے سے باہر نکالنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔

پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے بعد امریکا میں ان دنوں نسل پرستی کے خلاف جذبات اپنی انتہا پر ہیں، جبکہ سفید فام نسل پرست بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ امریکا میں اگر ایک طرف سیاہ فام افراد جارج فلائیڈ اور دیگر کو انصاف دلوانے کے لیے مظاہرے کررہے ہیں تو دوسری طرف سفید فام امریکیوں کی مسلح ملیشیا ان کے دو بدو کھڑی نظر آتی ہے۔

نسل پرستی کے اسی ماحول کو ٹرمپ کے مدِمقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بائیڈن نے اپنے انتخابی منشور اور انتخابی مہم میں ایشیائی، لاطینی اور افریقی امریکیوں کو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سماجی حقوق اور مرتبہ دلوانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

بائیڈن کے مطابق نسل پرستی کی وجہ سے ایشیائی، لاطینی اور افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری تعلیم، صحت، معیشت اور ملازمت جیسے شعبوں میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ بائیڈن کے منشور کا ہر حرف اسی جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔

Leave a reply