بچوں کے بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار کون؟  دوسرا حصہ:  تحریر: احسن ننکانوی 

جی اسلام علیکم اس دن ہم نے بات کی تھی کہ بچے کے بناؤ اور بگاڑ کا اصل ذمہ دار کون ہوتا ہے۔

جس میں بات کی تھی کہ والدین اور اساتذہ کرام کی کتنی کتنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور وہ کس حد تک بچے کے بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔

آج ایک بہت ہی اہم پہلو پر روشنی ڈالیں گے جو کسی بھی بچے کے بناؤ یا بگاڑ میں بہت حد تک ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور جیسے جیسے وہ اثرات مرتب کرتا ہے اسی طرح بچہ بگڑتا یا سنورتا ہے۔

آپ نے علامہ اقبال کا وہ مشہور شعر تو سنا ہوگا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ شاہین کا بچہ بلند پرواز کر تو سکتا تھا لیکن زاغوں اور کوؤں کی بری صحبت نے اسے بگاڑ دیا۔

آپ میرے شعر سے سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کس چیز کی بات کر رہا ہوں میرا اصل اشارہ اس طرف ہے کہ معاشرہ ماحول بچے پر بہت اثرات مرتب کرتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو والدین اور اساتذہ کرام پر ساری ذمہ داری ڈال دیتے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ معاشرتی ماحول بھی بچے پر مختلف قسم کے اثرات ڈالتا ہے۔

الحمدللہ پاکستان میں تقریبا 95 فیصد والدین اور اساتذہ کرام ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو ایک اچھا انسان بنتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اور اپنی زمہ داری بہت ہی احسن طریقے سے سر انجام دیتے ہیں۔

اس لئے بچوں کے بگڑنے اور سنورنے کی ساری ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر ڈال دینا ایک بہت ہی ناانصافی اور زیادتی والی حرکت ہے۔

والدین اور اساتذہ کرام کی ایک واضح اور غالب اکثریت ایسی بھی ہے جو اپنے بچوں کواسلامی اور روحانی طور پر ایک اچھا انسان بنتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور معاشرے میں کچھ کر گزرنے کی صلاحیتیں ان کے بچے میں ہوں۔

لیکن ماحول اور معاشرے کے سامنے وہ اپنی جائز اور نیک آرزو کا خون ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

جب تک ایک صحت مند ماحول اور معاشرہ بچے کو نہیں ملے گا تو والدین یا اساتذہ کرام جتنی مرضی محنت کر لیں۔

ان کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے جو بہت ساری آرزوئیں لے کر اپنے بچے کو ایک اسلامی طرز عمل اور اسلامی زندگی پر چلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

بتائیے آج کا بگڑا ہوا ماحول اور معاشرہ ہمارے والدین کی نیک تمناؤں کے لیے کارساز ہے۔

بتائے کیا ہمارے معاشرے میں کمر توڑ مہنگائی اور دوسری جو ماحول خراب کرنے والی چیزیں ہیں انھوں نے والدین اور بچوں کو ذہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے اور بہت زیادہ آبادی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔

معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام جیسے مرضی اپنا ذمہ داری نبھائیں لیکن جب بچے باہر نکلتے ہیں تو فحش فلمیں اور گانے وغیرہ سنتے ہیں۔

تو جو والدین اور اساتذہ کرام نے بچوں کو روحانی تعلیم دی ہوتی ہے تو اس پر پانی پھر جاتا ہے جب وہ باہر کے ماحول میں جاتے ہیں۔

اس لئے ہم صرف یہ نہیں کہہ سکتی کہ والدین یا اساتذہ کرام سے صرف بچوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں ماحول معاشرہ بھی ایک بہت بڑا ذمہ دار ہوتا ہے جس میں ہمارے بچے جوان ہوتے ہیں۔

اب اسی سے نوے فیصد تک سلجھے ہوئے اور نیک گھرانے بھی اپنے بچوں کو سنبھال نہیں پا رہے۔

نیک اور صالح والدین بھی بہت ساری کوشش کے باوجود پریشان ہیں۔

سب سے پہلی ہر بندے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحول کو ٹھیک کرنے کا سوچے اور جو جو اس پر ذمہ داری عائد ہو اس کے مطابق وہ ماحول کو ٹھیک کرے اس طرح معاشرہ ٹھیک ہوگا اور لوگوں کی اچھی اچھی ترجیحات ہو اس طرح سے جب ماحول ٹھیک ہو گا تو ہمارے بچوں کی پرورش بھی اچھے ماحول میں ہوگی تو جب وہ جوان ہوں گے تو اس وقت تک معاشرہ بہت پاک صاف ہو چکا ہوگا۔

اور آنے والی نسلیں ایک پاک صاف معاشرے میں پروان چڑھ سکیں گی ۔

‎@AhsanNankanvi

Comments are closed.