ڈبلیو ایچ او نے ملیریا ویکسین کی منظوری دے دی

0
57
ڈبلیو-ایچ-او-نے-ملیریا-ویکسین-کی-منظوری-دے-دی #Baaghi

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ملیریا کے خلاف پہلی ویکسین کی منظوری دے دی ہے۔

باغی ٹی وی : عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ روز ویکسین کی توثیق کی ہے جو اس عمل کا پہلا قدم ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے عالمی ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پیڈرو الونسو نے کہا کہ ملیریا ویکسین محفوظ ، اعتدال پسند اور تقسیم کے لیے تیار ہے ، اوریہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا نے ملیریا کے خلاف جنگ میں ایک نیا ہتھیار حاصل کیا ہے جو کہ متعدی بیماریوں کی قدیم ترین اور جان لیوا بیماریوں میں سے ایک ہے ایک اندازے کے مطابق بیماری کو روکنے میں پہلی مدد کے لیے دیکھی جانے والی ویکسین ہر سال دسیوں ہزار بچوں کو بچائے گی۔

ایک اندازے کے مطابق ملیریا ہر سال افریقہ میں پانچ لاکھ افراد کی موت کا باعث بنتا ہے جس میں آدھی تعداد بچوں کی ہے ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر دو منٹ بعد ایک بچہ ملیریا کی وجہ سے انتقال کر جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ فیصلہ گھانا، کینیا اور مالدیپ میں 2019 میں تشکیل دیئے گئے ایک پائلٹ پروگرام کے جائزے کے بعد کیا گیا ہے جہاں ویکسین کی 20 لاکھ سے زائد خوراکیں دی گئی تھیں۔جس کو پہلی مرتبہ فارماسیوٹیکل کمپنی گلیکسو اسمتھ کے لائن نے 1987 میں تیار کیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے ویکسین ملیریا پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے اثر انداز نہیں ہو گی لیکن پھر بھی افریقہ میں ملیریا کی لہر کی شدت کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

دنیا میں مختلف بیماریوں اور جراثیم کے سدباب کے لیے کئی ویکسین موجود ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلی مرتبہ انسانی وبائی مرض کے خلاف ایک ویکسین کے وسیع پیمانے پر استعمال کی تجویز دی گئی ہے۔

ملیریا ایک مہلک بیماری ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے اگرچہ اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے تاہم صحت کا عالمی ادارہ کہتا ہے کہ سنہ 2019 میں اِس سے تقریباً 23 کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور چار لاکھ نو ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔

اس بیماری کے لگنے کے بعد ابتدا میں بخار ہوتا ہے، پھر سر درد محسوس ہوتا ہے، سردی محسوس ہوتی اور علاج نہ کیے جانے کی صورت میں ‘یہ سنگین صورت اختیار کرسکتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔’

ملیریا ایک خطرناک اور مہلک خون کو متاثر کرنے والا مرض ہے جو کہ ایک پیراسائیٹ سے متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جسے اینوفلیز ماسکیٹو کہتے ہیں یہ اپنی خوراک انسانی خون سے حاصل کرتے ہیں اور اگر کوئی متاثرہ مچھر انسان کو کاٹ لے تو یہ بیماری انسان میں منتقل ہو جاتی ہے۔

یہ بیماری بہت ہی جلد پھیلنے کی وجہ سے کافی خطرناک ہو سکتی ہے اور بیماری کی نوعیت پیراسائیٹ کی قسم پر منحصر ہوتی ہے۔ چونکہ یہ پیراسائیٹس دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اقسام کے ہوتے ہیں لہذا مرض کی نوعیت بھی علاقوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔

ملیریا کی علامات:
ابتدائی علامات بیماری کی شدید نوعیت کی علامات سے مختلف ہوتی ہیں شدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ مرض مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے اس میں شدید تیز بخار چڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جسم شدید کپکپاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور انسان کو شدید سردی لگنے لگتی ہے اور وہ بے ہوش بھی ہو سکتا ہے۔

متاثرہ شخص میں دورے پڑنے کے امکانات بھی ہوتے ہیں اور انسان کا سانس بھی جواب دینے لگتا ہے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اور انسان خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے شدید ملیریا میں انسان کی آنکھیں بھی پیلی پڑ جاتی ہیں جسے جانڈس کہتے ہیں۔

ابتدائی مراحل اور مناسب نوعیت کی بیماری میں اعضاء کے افعال میں کوئی کمی نہیں آتی اور علامات روزانہ 6 سے 10 گھنٹوں کے وقفے سے نمودار ہوتے ہیں مختلف اقسام کے پیراسائیٹس مختلف نوعیت کے مرض کا باعث بنتے ہیں تاہم بغیر علاج کے ہلکی نوعیت والی بیماری بھی شدت پکڑ سکتی ہے بالخصوص اگر انسان کی قوت مدافعت پہلے سے متاثر ہو۔

چونکہ اس بیماری کی علامات عام کھانسی اور زکام سے ملتی جلتی ہیں اس لئے ابتدائی مراحل میں اس کی تشخیص نسبتاً مشکل ہو جاتی ہے۔

علامات میں ٹھنڈے اور گرم پسینے،شدید سردی کی کیفیت، کپکپاہٹ اور تیز بخار شامل ہیں دورے پڑنا عموما بچوں میں دیکھا گیا ہے جبکہ سر درد، بخار اور الٹی سب کو برابر متاثر کرتی ہیں۔

علاج اور احتیاط:
اس مرض کا علاج دراصل جسم سے پیراسائیٹ کو ختم کرنے پر منحصر ہوتا ہے ایسے مریضوں کا بھی علاج ممکن ہے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیونکہ وہ انفیکشن پھیلا سکتے ہیں۔

عام نوعیت کے مرض کے علاج کیلئے ڈبلیو۔ایچ۔او ایکٹ(اے۔سی۔ٹی) تھراپی کا انتخاب بتاتی ہے جو کہ آرٹیمیسینن کے ساتھ مزید کسی ایک اور دوا پر مشتمل ہوتی ہے یہ ادویات پیراسائیٹس کی تعداد کو ڈرامائی طور پر کافی کم کر دیتی ہیں لیکن بری بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیراسائیٹس اس دوا کے خلاف بھی مزاحمت اختیار کر رہے ہیں اور آرٹیمیسینن کے ساتھ ساتھ کسی اور طاقتور ڈرگ کا استعمال بھی لازمی ہو گیا ہےاس بیماری کے خلاف ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے علاج محض اینٹی ملیریئل ڈرگز پر ہی منحصر ہے لہذا بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ اس مرض سے بچا جائے۔

مچھر سے بچاو کے کئی طریقے ہیں جن میں چند احتیاطی تدابیر مندرجہ ذیل ہیں:

ایسی جگہوں پر رہا جائے جدھر کھڑکیاں اور دروازے اچھے طریقے سے بند ہوں یا ایئرکنڈیشنڈ کمروں کا انتخاب کیا جائے ایئرکنڈیشنڈ کمروں کی عدم موجودگی کی صورت میں مچھر دانی کا استعمال کیا جانا چاہئیے۔

اپنی جلد پر مچھر مار ادویات یا سپرے کا استعمال کیا جائے بالخصوص شام اور رات کے وقت پورے بازوں والے کپڑے پہن کر جسم کو حتی الامکان ڈھانپنا چاہیئے۔

Leave a reply