اکثر مظلوم ملزمان سے صلح کیوں کرلیتے ہیں؟ تحریر: ملک رمضان اسراء 

0
28

اکثر مظلوم ملزمان سے صلح کیوں کرلیتے ہیں؟

منصف: اسلام آباد میں مقیم صحافی اور کالم نگار ہے۔

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اکثریت اوقات زیادتی کا شکار مظلوم لوگ ملزمان سے کیوں کرلیتے جس کے سبب ملزمان سزا سے بچ جاتے آج میں آپ کو اس بلاگ میں ایک حقیقی کہانی کا واقع سناتا ہوں جس میں مظلوم خاندان نے ملزمان سے صلح کرلی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں گرہ مٹ میں شریفہ بی بی نامی لڑکی کو برہنہ کرکے علاقہ کی گلیوں میں گھمایا گیا تھا۔ 13 اپریل کو مقامی عمائدین اور سابق ایم این اے ٹانک داور خان کنڈی کی ثالثی کے توسط سے گاوں گرہ مٹ میں ایک جرگہ کے تحت 2017 میں بے لباس کی گئی شریفہ بی بی کے خاندان اور ملزمان کے مابین راضی نامہ کروایا گیا۔

جرگہ میں موجود ایک شخص نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: اس وقت شریفہ بی بی کیس میڈیا میں آنے کے بعد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا تاہم سجاول نامی شخص جو برادری کا وڈیرا اور بااثر شخص تھا جن پر مرکزی ملزم ہونے کا الزام ہے کو کئی عرصہ بعد گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ روپوش ہوگیا تھا اور متاثرہ خاندان نے مرکزی ملزم کو سیاسی چھتری فراہم کرنے کا الزام اس وقت کے صوبائی وزیر مال اور موجودہ وفاقی وزیر علی امین خان گنڈہ پور پر عائد کیا تھا جسکی علی امین نے تردید کی تھی تاہم بااثر ملزمان شریفہ بی بی کے خاندان پر صلح کرنے کیلئے دباو ڈالتے رہے تاکہ سجاول سیہڑ کو پولیس گرفتاری سے بچایا جاسکے اور معاملہ کو رفع دفع کیا جائے  مگر اس وقت شریفہ بی بی کے خاندان نے قانونی کروائی کرنے کو ترجیح دی۔

 جرگہ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والوں میں شامل ایک شخص نے بتایا: ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر گزشتہ چار سال سے چلے آرہے اس مسئلہ کا راضی نامہ کرکے فریقین کے مابین یہ تنازع ختم کرایا ہے تاکہ مزید یہ ایک دوسرے کے ساتھ اس جھگڑے میں نہ پڑے رہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ  اس صلح نامہ کے عوض ملزمان کی طرف سے بطور جرمانہ شریفہ بی بی کے خاندان کو کتنی رقم ادا کی گئی تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ بھی طے نہیں پایا جب کہ شریفہ بی بی اور ان کے خاندان نے ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف کردیا۔ 

لیکن جرگہ میں موجود شناخت ظاہر نہ کرنے والے مذکورہ شخص نے اس دعوی کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان نے تمام ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف نہیں کیا بلکہ ثالثوں نے یہ فیصلہ مبلغ 45لاکھ روپے میں کیا ہے جسکے تحت ہر ملزم کو پانچ لاکھ روپے ادا کرنے ہیں انہوں نے دعوی کیا جس روز یہ جرگہ ہوا اس وقت شریفہ بی بی کے خاندان کو موقع پر 23 لاکھ روپے ادا کیئے گئے جبکہ بقیہ رقم عدالت میں زیر سماعت کیس ختم ہونے کے بعد ادا کی جائے گی۔

ثالثی کا کردار ادا کرنے والے نے مزید بتایا: ہم جرگہ ثالثین نے ملزمان پر کچھ شرائط عائد کی ہیں اور وہ یہ کہ ملزمان شریفہ بی بی کے محلہ کی مخصوص گلیوں جن میں متاثرہ لڑکی اور ان کے خاندان کا آنا جانا لگا رہتا ہے میں تمام عمر نہیں جائیں گے۔ اور یہ اس لیئے کیا گیا تاکہ ملزمان اور متاثرہ خاندان کا حتی الامکان آمنا سامنا نہ ہوسکے کیونکہ جو کچھ متاثرہ بچی اور ان کے ساتھ ہوا تھا اسکا کسی صورت مداوا نہیں کیا جاسکتا البتہ ہم نے پوری دیانتداری سے کوشش کی ہے کہ شریفہ بی بی کے خاندان کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور یہ راضی نامہ ان کی رضامندی سے ہوا ہے۔

شریفہ بی بی کے بھائی سجاد سیال جن پر وڈیروں کی لڑکی کے ساتھ فون پر بات کرنے کے الزام کی وجہ سے اس جھگڑا کی بنیاد بنی تھی نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے راضی نامہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ: "ہمیں وسیب کے وڈیروں نے پہلے بھی بہت دفعہ کہا تھا کہ راضی نامہ کرلو لیکن اس وقت ہم نے انکار کردیا تھا لیکن پھر گزشتہ کئی دنوں سے گاوں سمیت مختلف اہل علاقہ اور مشران نے ہمیں کہا کہ آپس میں راضی نامہ کرلو لہذا ہم نے ان سے سوچنے کا وقت مانگا اور میں نے اپنی بہن شریفہ بی بی اور والدہ سے مشورہ کرکے جرگہ ثالثان جن میں سابق رکن قومی اسمبلی داور کنڈی اور مقامی شخصیت شیخ توقیر اکرم شامل تھے سے اپنی رضامندی ظاہر کی جسکے بعد مقامی عمائدین سمیت ان لوگوں نے ہماری صلح کروا دی۔

ایک سوال کے جواب میں ساجد نے کہا: ” اس راضی نامہ کے حوالے سے ہم پر کسی قسم کا کوئی دباو نہیں اور ناہی ہم کسی زبردستی کے تحت ملزمان سے راضی نامہ کررہے۔

 جب ساجد سیال سے یہ سوال کیا گیا کہ: اگر آپ پر کوئی دباو نہیں اور تمام ملزمان بھی گرفتار ہوگئے تھے تو پھر کیس کی پیروی کرنے کے بجائے آپ نے صلح کیوں کی اور کیا آپ نہیں چاہتے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کیفر کردار تک پہنچیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: "ہم نے ایسا اپنی جان چھڑانے کیلئے کیا تاکہ آگے بدی (نسل در نسل دشمنی) سے بچا جاسکے کیونکہ اگر یہ تنازعہ ایسے جارہی رہا تو خدانخواستہ پھر کبھی کوئی اس دشمنی کے سبب مسئلہ نہ بن جائے لہذا یہ جھگڑا ختم ہوجائے تو بہتر ہے کیونکہ ہم اس علاقے میں رہتے ہیں یہاں آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں اور دوسرا کیس کی پیروی کیلئے مسلسل آنا جانا یہ ہمارے لیئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ رہا جبکہ میری بہن کئی عرصہ سے بیمار رہی اور اب بھی زیر علاج ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: "میں چھ بہنوں کا واحد بھائی ہوں اور شریفہ بی بی سمیت چار بہنوں اور ایک ماں کا اکلوتا کفیل ہوں، میری دو بہنوں کی شادی ہوچکی جبکہ اس مسئلہ کے سبب شریفہ بی بی سمیت باقی تین بہنوں کے ابھی تک کہیں رشتے بھی نہیں ہوئے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جہالت ہے۔ اور اللہ نہ کرے اس دشمنی کی وجہ سے مجھے کچھ ہوگیا تو میری بوڑھی ماں اور کنواری بہنوں کا کیا بنے گا؟”

انکے مطابق: ملزمان کی خواتین شریفہ بی بی کے پاس جبکہ ملزمان اہل علاقہ سمیت باہمرہ ایک عدد بیل ہمارے گھر چل کر آئے اور اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ہمارے پورے خاندان سے معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار بھی کیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اس راضی نامہ کے بدلے جرمانہ کے طور ملزمان کی جانب سے کوئی رقم ادا کی گئی تو انہوں نے انکار نہ کرتے ہوئے اس حوالے سے بات کرنے پر معزرت کرتے ہوئے کہا کہ: وہ ہمارے پاس چل کر آگئے لہذا ہم یہ دشمنی مزید آگے نہیں بڑھانا چاہتے ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ: وہ (ملزمان) خواتین و مرد ہمارے پاس معافی کیلئے چل کر آئے لہذا شریفہ بی بی بھی اس صلح نامہ سے راضی ہے اور انکو معاف کردیا گیا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مزید تصدیق کیلئے خود شریفہ بی بی کا موقف جاننا چاہتا ہوں تو ان کا جواب تھا ہمارے علاقہ میں موبائل سروس کا بہت زیادہ مسئلہ ہے اور گاوں سے باہر صرف اونچی جگہوں پر سگنل آتے ہیں لہذا ان سے بات کرانا ممکن نہیں۔

شریفہ بی بی کے بھائی نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: میڈیا نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور جن جن لوگوں نے ہمارے لیئے اس وقت ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ 

شریفہ بی بی کیس میں ملزمان کے وکیل غلام محمد سپل  نے بتایا: چند ماہ قبل اس کیس میں نامز ملزمان نے ضمانتیں کروائی تھی تاکہ وہ شریفہ بی بی کے خاندان کے ساتھ راضی نامہ کرسکیں جسکے لئے خود متاثرہ خاتون نے ڈی آئی خان سیشن کورٹ میں بیان قلمند کرایا تھا کہ ہماری ملزمان کے ساتھ صلح پر بات چیت چل رہی لہذا مجھے ان کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں جسکے بعد عدالت نے انہیں دو ماہ کا وقت دیتے ہوئے ضمانت پر رہا کردیا تھا۔

جب ملزمان کے وکیل سے پوچھا گیا کہ دعوی کیا جارہا ہے کہ رقم کے عوض صلح نامہ کیا گیا ہے لیکن دونوں فریقین اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کیا اس کی کوئی قانونی وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: بالکل اگر واقعی یہ راضی نامہ پیسوں کے عوض ہوا ہے اور یہ لوگ عدالت میں یہ جواز پیش کریں کہ ہم نے ملزمان کو رقم کے بدلے معاف کیا تو پھر عدالت یہ بات قبول نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ وہ فی سبیل اللہ معاف کرنے کا کہہ رہے تاکہ کل کو عدالت میں کوئی قانونی مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔

جب اس سلسلہ میں شریفہ بی بی کے وکیل احمد علی اور جرگہ میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرنے والے سابق رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

پس منظر:

 نومبر 2017 میں شریفہ بی بی جس کا تعلق گاوں گرہ مٹ تحصیل درابن ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے کے بھائی سجاد سیال پر  کومب برادری کی ایک لڑکی سے فون پر بات کرنے کے الزام کی دشمنی کی بنا پر ان کی متاثرہ بہن کو بااثر وڈیروں نے برہنہ کرکے گاوں کی گلیوں میں گھمایا تھا لیکن دوسری طرف سجاد سیال اس الزام سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس لڑکی سے فون پکڑا گیا تھا وہ میرا نہیں تھا اور ناہی میرے نام پر اسکی سم تھی، اس وقت سم ڈیٹا نکلوایا گیا تھا اور وہ سم جس شخص کے نام پر تھی اسے چھپا دیا گیا اور جھوٹا الزام مجھ پر لگادیا گیا۔

 شریفہ بی بی کے خاندان کے مطابق ان کی سترہ سالہ بیٹی کو بے لباس کرنے والوں میں کل 9 لوگ ملوث تھے جن میں سجاول سیہڑ نامی وڈیرا ان کی پشت پناہی کررہا تھا اور انہوں نے اس واقعہ کے فورا بعد متاثرہ لڑکی کے بھائی سجاد پر پرچہ کروا دیا کہ درحقیقت یہ ملزم ہے اور اس نے ہمارے گھر آکر خواتین کے کپڑے پھاڑے۔

 شریفہ بی بی کے خاندان نے دعوی کیا تھا کہ: یہ اس لئے کیا گیا تاکہ متاثرہ خاندان کی طرف سے کیا گیا پرچہ کراس ہوسکے لیکن بعدازاں اس کوتاہی میں ملوث ایس ایچ او کو معطل بھی کیا گیا جنہوں نے مرکزی ملزم کے ساتھ مل کر اس وقت سانحہ کے فورا بعد رپورٹ کیلئے آئی متاثر لڑکی کو تھانہ میں گالیاں دی تھی جس کا الزام خود شریفہ بی بی نے ایک ٹی وی پروگرام میں بھی لگایا تھا کہ:  "جب میں خاندان کے ساتھ تھانہ رپورٹ کرنے گئی تو وہاں موجود پولیس آفیسر نے مجھے گالیاں دیتے ہوئے دھکے دیئے اور کہا نکل جاو اصل قصوروار تمہارا بھائی سجاد ہے اور تم اب ان پر الزام لگا رہی۔”

 بعدازاں معاملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے قومی سطح پر چلا گیا اور پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا اور عدالت پیش کرکے جیل بھیج دیا تھا۔

سماجی کارکن رجب علی فیصل کا خیال ہے کہ اکثر مظلوم ملزمان سے اس لیئے صلح کرلیتے ہیں کیونکہ ان میں کیس کی پیروی کی طاقت نہیں ہوتی کیونکہ وہ غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لہذا  ایسے دیہی اور پسماندہ علاقوں کے لوگ مقامی وڈیروں سے ڈرتے ہیں کیونکہ تھانہ کچہری میں سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے انکی پہنچ زیادہ ہوتی ہے۔ اور پھر انہوں نے اسی معاشرہ میں رہنا ہوتا ہے انکی جائیداد، روزگار، رشتہ داریاں وہاں پر ہوتی ہیں لہذا وہ چاہا کر بھی ملزمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے کیوں کہ وہ مختلف مجبوریوں میں جکڑے ہوتے ہیں جس میں سب بڑی وجہ آگاہی نہ ہونا اور غربت ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک اس بارے میں کسی قسم کی آگاہی ہے اور نا ہی ایسا کوئی فعال ادارہ جو ان لوگوں صحیح معنوں میں رہنمائی یا مدد کرسکے اور شریفہ بی بی کیس میں بھی یہی عوامل شامل ہیں جسکے سبب مظلوم گھرانے نے ملزمان سے صلح کرلی۔

Leave a reply