بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر کیوں ہے؟     تحریر: ایمان ملک 

0
35

 
علاقائی سلامتی کی صورت حال پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے قریبی پڑوس میں ، اور خاص طور پر افغانستان کے اگلے دروازے پر موجود  تخریبی عناصر کو بھی زیرِ نظر رکھنا چاہیے جو فی الوقت ہمارے ملک میں علاقائی صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور امن و امان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کوئٹہ کے مضافات میں کوئٹہ مستونگ روڈ پر اتوار کو ہونے والے ایک خودکش حملے میں کم از کم چار فرنٹیئر کور کے جوانوں کی شہادت اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہمارا ملک ایک لمحے کے لیے بھی کسی بھی طور پر کسی کی بھی جانب سے اپنے محافظوں کو نیچا دکھانے کی روش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستان ابھی بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ 
کالعدم ٹی ٹی پی نے مذکورہ بالا دہشت گردی کی کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے خاص طور پر خودکش حملوں میں۔ مثال کے طور پر پچھلے مہینے ، کم از کم دو بچے گوادر کے ایسٹ بے ایکسپریس وے کے علاقے میں شہید ہوئے تھے جبکہ دہشت گردوں کا نشانہ چینی شہریوں کو لے جانے والی موٹر کار تھی علاوہ ازیں، کراچی میں بھی چینی افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ واقعات کالعدم بلوچ علیحدگی پسندوں نے انجام دیے ہیں۔ مزید برآں جولائی کا داسو واقعہ ( جس میں متعدد چینی شہری مارے گئے تھے) اور اس جیسے حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والے دیگر افسوسناک واقعات پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ دشمنان پاکستان کا ہدف بظاہر چینی شہری اور بلوچستان کی سرزمین ہے مگر درحقیقت انکا مقصد سی پیک جیسے اسٹراٹیجک منصوبے کو رکوانا اور ناکام بنانا ہے۔  
اگرچہ پاکستان بیرون ملک سیکورٹی خطرات پر قابو پانے کے لیے بہت کم کام کر سکتا ہے کیونکہ یہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ، لیکن پھر بھی وہ اپنے تمام تر سیکیورٹی اپریٹس کو متحرک کر سکتا ہے تاکہ عسکریت پسندوں کی یہاں سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے نیز انہیں بروقت روکا جاسکے ۔ بلاشبہ اس وقت افغانستان ایک تشویشناک علاقہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ پاکستان  کے افغان طالبان کے ساتھ منفی تعلقات نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ کابل کے حقیقی حکمرانوں بالخصوص افغانستان میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا فقدان ہے ، جبکہ خود ساختہ داعش کے خراسان باب جیسے گروپ ، ٹی ٹی پی اور بلوچ باغی اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغان طالبان پر دباؤ ڈالے کہ وہ ان سیکورٹی خطرات کے خلاف کارروائی کرے ، جبکہ داخلی کوششیں بھی تیز کی جائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان میں دشمنوں کی طرف سے کوئی چھوٹی یا بڑی دراندازی / دہشتگردی نہ ہو سکے جسکا حساس ادارے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ 
دریں اثناء ، انٹیلیجنس پر مبنی آپریشنز کو بھی مقامی طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے ، خاص طور پر بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ، جہاں سیکیورٹی کی صورتحال ماضی میں خاص طور پر نازک رہی ہے۔ مزید یہ کہ کچھ علاقائی ریاستیں جو پاکستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتی وہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو بطور ہتھیار ہمارے ملک کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں اس لیے حکومت پاکستان کو ان کی کوششوں کا مقابلہ اور بروقت تداراک کرنا چاہیے۔ آخر میں ، افغانستان میں جتنی جلدی بھی ایک جامع حکومت بنتی ہے ، نہ صرف یہ اس ملک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہتر ہوگا۔ طالبان کے ساتھ ساتھ ان کے افغان مخالفین کو بھی اس مقصد کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایک نئی خانہ جنگی کو مذکورہ بالا عسکریت پسند گروہ خود کو خطے میں دوبارہ منظم کرنے اور پورے علاقے میں تباہی پھیلانے کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ 
ایمان ملک 

Leave a reply