کرتارپور سکھوں کے لیے کیوں اہم ؟

0
29

کرتار پور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ تین سے چار کلومیٹر کا ہی ہے۔

یہ گرودوارہ تحصیل شکر گڑھ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے، راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاؤں میں ہے۔

پکی سڑک یعنی شکر گڑھ روڈ سے نیچے اترتے ہی ایک دلفریب منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ سرسبز کھیت آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، پگڈنڈیوں پر بھاگتے دوڑتے بچے اور ریگتی بیل گاڑیاں، دور درختوں کی چھاؤں میں چلتے ٹیوب ویلز اور کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک سفید عمارت۔دھان کی فصل اور پرسکون دیہی ماحول میں گردوارے کی سنگِ مرمر کی عمارت دور سے نیلے آسمان تلے لہلاتے کھیتوں میں بیٹھے کسی سفید پرندے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔

تاریخ میں پہلی بار50 روپے کا یادگاری سکہ جاری ، کس کے نام پر سب حیران

گرودوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں ہے جسے گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر استعمال رہا۔ اسی مناسبت سے اسے ‘سری کُھو صاحب’ کہا جاتا ہےکنویں کے ساتھ ہی ایک بم ٹکڑا بھی شیشے کے شو کیش میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اس پر درج تحریر کے مطابق یہ گولہ انڈین ایئر فورس نے سنہ 1971 کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پھینکا تھا جسے کنویں نے ’اپنی گود میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔‘

برطانیہ نے10 ملین یادگاری سکے ضائع ، پاکستان نے جاری کردیئے

گردوارے کے داخلی دروازے کے باہر سر ڈھانپنے کے بارے میں ہدایت درج ہے اور ملک کے دیگر گردواروں کی طرح‌ یہاں داخل ہونے کے لیے آپ کی مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی۔گردوارے کے خدمت گاروں میں سکھ اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور ہر آنے والے کے لیے یہاں لنگر کا بھی اہتمام ہے۔مقامی افراد کے مطابق یہاں مسلمان باقاعدگی سے فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔

بابا گرو نانک کو مقامی مسلمان افراد ایک برگزیدہ ہستی کا درجہ دیتے ہیں جبکہ سکھ انھیں سکھ مذہب کا بانی سمجھتے ہیں۔گردوارے کی مرکزی عمارت کے باہر کشادہ صحن ہے جہاں لنگر خانہ اور یاتریوں کے قیام کے کمرے موجود ہیں۔گردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والی سیلاب میں تباہ ہوگئی تھی ۔ موجودہ عمارت سنہ 1920 سے 1929 کے درمیان 1,35,600 روپے کی لاگت سے پٹیالہ کے مہاراجہ سردار پھوبندر سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے بھی اس کے دوبارہ مرمت کی تھی۔

سانپ کا کام ڈسنا!بھارت نے سابق وزرائے اعلیٰ‌کشمیرسے بنگلے بھی چھین لیے

تقسیم ہند کے وقت یہ گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد تقریباً 56 سال تک یہ گردوارہ ویران رہا۔ دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے سبب یہ گرودوارہ عرصہ دراز تک یاتریوں کا منتظر رہا۔سرحد کے دوسری جانب سکھ یاتری گرودوارہ دربار صاحب کو دیکھنے کے لیے دوبینوں کا استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے انڈین بارڈر سکیورٹی فورسز نے خصوصی طور پر ’درشن ستھل‘ قائم کیے ہیں تاکہ وہ اس جانب واضح طور پر گردوارے کے درشن کر سکیں۔

کرتار پور-ڈیرہ بابا نانک راہداری کے حوالے سے پہلی بار 1998 میں انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے مشاورت کی گئی تھی، اب 20 برس بعد دوبارہ یہ خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔دونوں جانب سے امید کی جا رہی ہے کہ اب کی بار ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر سکھوں کے اس دیرینہ مطالبے پر شاید کچھ پیش رفت ہو جائے گی۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گردوارے کی زیارت بھی کرتے ہیں۔

Leave a reply