مدنی صاحبان آر ایس ایس کے معترف کیوں ؟ تحریر بھارتی صحافی ادتیہ مینن

0
35

(ادتیہ مینن انڈیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقق اور صحافی ہیں۔ بھارتی سیاست پر ان کے تجزیات اور ڈیٹا کی بنیاد پر تجزیاتی رپورٹس معروف ویب سائٹ the quintپر شایع ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جمعیت علمائے ہند قائدین کے آر ایس ایس سے رابطوں اور مودی سرکار سے متعلق ان کے بیانات پر ادتیہ مینن کا ایک مضمون شایع ہوا، باغی ٹی وی کی ٹیم the quint کی مشکور ہے کہ انہوں نے یہ آرٹیکل شائع کیا )
مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی کی زیر قیادت جمعیت علمائے ہند کے دونوں دھڑوں کی جانب سے حال ہی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور مودی سرکار سے متعلق مصالحانہ بیانات سامنے آئے ۔
مولانا ارشد مدنی نے حال ہی میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک(سربراہ) موہن بھاگوت سے ملاقات کی اور انھیں سراہا۔ ’’دی کوئنٹ‘‘ سے اس ملاقات کے بعد ہونے والی گفتگو کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:
۔۔۔ ’’بھاگوت جی کی تنظیم (آر ایس ایس) انتہائی منظم ہے۔ میری رائے میں بھارت میں کوئی اور اس جیسا نہیں۔‘‘
۔۔۔’’آرایس ایس اپنے ہندو راشٹر کے تصور سے پیچھے ہٹ سکتی ہے‘‘
۔۔۔۔ ’’اگر آر ایس ایس ہم سے نرمی برتتی ہے تو ہم ایسا کیوں نہ کریں۔‘‘
مولانا محمود مدنی نے بھی آر ایس ایس کے حق میں کئی بیانات دیے اور کشمیر اور نشینل رجسٹر آف سٹیزن شپ(این آر سی) جیسے امور پر مودی سرکار کی حمایت کی۔ ان کے چند بیانات ملاحظہ کیجیے:
۔۔۔’’میرا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں آر ایس ایس نے نرم روی یا آزاد خیالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ایک سنہرا موقع ہے میل جول کی حوصلہ ا فزائی ہونی چاہیے۔‘‘
۔۔۔۔’’این آر سی کی جانچ پڑتال پورے بھارت میں ہونی چاہیے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کتنے گھس پیٹھیے ہیں‘‘
۔۔۔ کشمیر ہمارا ہے اور ہمارا ہی رہے گا۔ ہم ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
ان دونوں علما کے بیانات کو مختلف انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بعض کے خیال میں یہ بیانات مدنی صاحبان کے مابین جمیعت کی قیادت کے لیے جاری کھینچ تان کا نتیجہ ہے اور اب ان میں سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ دونوں ہی کاتعلق جمیعت کے بانی محمود الحسن اور اس کے سابق صدر حسین احمد مدنی کے خاندان سے ہے۔
سینٹر فور دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز(سی ایس ڈی ایس) کے ہلال احمد کا کہنا ہے کہ جمیعت مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور وہ اس پر کشمیر اور این آر سی کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم(ہیٹ کرائمز) کو دستاویزی شکل دینے والے محمد آصف خان کے مطابق مدنی صاحبان ہندوتوا کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
تاہم مدنی صاحبان کے اس اقدام کو بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور بالخصوص یہ دو پہلو بہت اہم ہیں۔ پہلے اسے جمیعت کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور دوسرا اسے بھارت میں مسلمانوں کو درپیشن بڑے چیلنجز کے سیاق و سباق میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جمیعت کا مؤقف کیا ہے:
جمیعت علمائے ہند اتر پردیش کے علاقے دیوبند میں قائم دارالعلوم کے علما کی نمائندہ تنظیم ہے۔ اگرچہ دیوبندی ہندوستانی مسلمانوں میں اقلیت میں ہیں، اور بعض اندازوں کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کی کل آبادی میں سے تقریبا پندرہ سے بیس فی صد اپنی شناخت بطور دیوبندی کرواتے ہیں، لیکن بریلویوں کے مقابلے میں ان میں زیادہ مرکزیت پائی جاتی ہے۔
اپنی اسی مرکزیت کی وجہ سے جمیعت بھارت میں مساجد کے سب سے بڑے نیٹ ورک پر کنٹرول رکھتی ہے۔ تاریخ طور پر مسلمانوں کی دیگر تنظیموں کے مقابلے میں جمیعت سیاسی جماعتوں اور حکومت میں زیادہ رسوخ رکھتی ہے۔
متحدہ قومیت:
جمیعت کی سیاسی فکر کی بنیاد متحدہ قومیت کے تصور پر ہے جو مولانا حسین احمد مدنی نے ۱۹۳۸میں اپنی کتاب ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ میں پیش کیا تھا۔
متحدہ قومیت کا تصور اس عقیدے کی مخالفت میں پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق ہندو اور مسلمانوں کو دو الگ قومیتیں قرار دیا جاتا تھا اور مسلم لیگ کے محمد علی جناح جس پر یقین رکھتے تھے۔
متحدہ قومیت کے مطابق مختلف مذاہب کو مختلف اقوام کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس کے بجائے قومیت کا تعلق زمینی حدود سے ہے جس میں مسلم و غیر مسلم ایک قوم کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم کے مابین رنگ، نسل زبان یا ثقافت جیسے مشترکات ہوسکتے ہیں۔
مدینہ کی مثال:
حسین احمد مدنی نے مشترکہ قومیت کی سند کے طور پر پیغمبر کے دور کے مدینہ کی نظیر پیش کی۔ ان کے مطابق ، میثاق مدینہ کے تحت یہود اور مسلمان قومیت کا یکساں احساس رکھتے تھے۔
میثاق مدینہ کی طرح ، جمیعت نے آزادی کے بعد یہ خیال پیش کیا کہ اب ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین ہندوستان کو ایک سیکیولر ریاست بنانے کا معاہدہ طے پاچکا ہے۔ بھارت کا آئین اس معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس معاہدے میں شامل ہونے کی وجہ سے ہر مسلمان پر آئین کی پاسداری لازم ہے۔
جمیعت یقین رکھتی تھی کہ مسلمانوں کو عبادات اور عائلی و مخصوص قوانین کی پیروی کے لیے مسلم لیگ کے پاکستان کے بجائے کانگریس کے بھارت میں زیادہ سازگار ماحول میسر آئے گا۔ جمیعت کے قائدین مسلم لیگ کی قیادت کو بے عمل مسلمان سمجھتے تھے اور انھیں مسلم قوانین سے متعلق کانگریس سے وسعت ِقلبی کی توقع تھی۔
جمیعت کے متحدہ قومیت کے تصور پر مسلمانوں کا مکمل اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ دیوبند کے علما میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس تصور اور اس کی مدینہ سے تطبیق پر اعتراض کیا اور اسے نصوص کے خلاف قرار دیا۔ بعدازاں شبیر احمد عثمانی نے علیحدہ ہوکر جمیعت علمائے اسلام قائم کرلی اور قیام پاکستان کی حمایت کی۔ حسین احمد مدنی کے متحدہ قومیت کے تصور پر علامہ اقبال اور بانی جماعت اسلامی سید مودودی جیسی شخصیات نے بھی تنقید کی۔
مدنی صاحبان کا ’’عملی‘‘ نقطہ نظر :
مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی کے آر ایس ایس کے ساتھ رابطے ایک اعتبار سے حسین احمد مدنی کے پیش کردہ متحدہ قومیت کے تصور ہی کا پھیلاؤ ہے۔ انہوں نے اس تصور کی خلاف ورزی بھی کی ہے جس پر آگے چل کر بحث کی جائے گی۔
دونوں صاحبان یہ نتیجہ اخذ کرنےمیں حق بجانب ہیں کہ جب مولانا حسین احمد مدنی نے متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا تو اس وقت کانگریس ہندووں کی نمائندہ تھی ، اور آج یہ نمائندگی بی جے پی کے پاس ہے۔ اس لیے ان کے تصور جہاں بینی کے مطابق ہندووں سے کسی بھی قسم کے مکالمے کے لیے وزیر اعظم مودی اور سربراہ آرایس ایس موہن بھاگوت سے بات کرنا ہوگی۔
لوک سبھا کے انتخابات میں کام یابی کے بعد مودی کے نام محمود مدنی کے ستایشی خط اور ارشد مدنی کی موہن بھاگوت سے ملاقات کو اسی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔ جمیعت کے نزدیک کانگریس اور سماج وادی پارٹی جیسی سیکیولر جماعتوں کے ذریعے ہندووں سے بات کرنا بے سود ہوچکا ہے اور اس کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس ہی موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک معروضی حقیقت ہے اور اس کا ادراک کرنے پر مدنی صاحبان کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
….گومگو کا شکارمسلمان:
مدنی صاحبان کا بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب جھکاؤ دراصل مسلمانوں کی اس گومگو کی کیفیت کا نتجہ ہے جس کی بنیاد یہ سوال ہے کہ ہندووں کی اکثریتی مطلق العنانیت میں اپنی بقا کیسے ممکن بنائی جائے۔
سادہ انداز میں کہا جائے تو آزادی کے بعد ہی سے بھارتی مسلمان سمجھتے تھے کہ ’’سیکیولر ہندو‘‘ کے ذریعے ہی ’’فرقہ پرست ہندو‘‘ کو روکا جاسکتا ہے۔ سیاسی میدان میں اس رائے کا اظہار اس طرح ہوا کہ مسلمانوں نے کانگریس، جنتا دَل اور اس سے ٹوٹنے والی بی ایس پی ، دائین بازو کی جماعتوں جیسی سیکیولر فکررکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو ’’مسلمان‘‘ جماعتوں پر ترجیح دی۔
ہندو ووٹرکی اکثریت مودی کے پیچھے چل پڑی اور بی جے پی نے ان سیکیولر جماعتوں کو پچھاڑ دیا۔ اب مسلمان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کررہے ہیں۔
مسلمانوں میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ بند گلی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے روابط بنائے جائیں۔
مدنی صاحبان اس فکر میں تنہا نہیں۔ مسلم اشرافیہ میں سابق مرکزی وزیر عارف محمود خان، کاروباری شخصیت ظفر سریشوالا، اور ماہر تعلیم فیروز بخت احمد اور ان جیسے دوسرے مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ مسلمان اب بی جے پی کو اچھوت سمجھنا چھوڑ دیں۔ بی جے پی بھی خان کو گورنر اور فیروز احمد اور سریشوالا کو مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کاچانسلر بنا کر واضح اشارہ دے چکی ہے کہ اسے کیسے مسلمان درکار ہیں۔
عام خیال یہی ہے کہ (بی جے پی کی )حمایت ایشوز کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
ماہرقانون اور نیشنل اکیڈمی آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ(نالسر) کے وائس چانسلر فیضان مصطفی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا کہ ریزرویشن پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے خیالات سبھی کو سننے چاہییں۔
آرٹیکل ۳۷۰کے خاتمے کا وسیع پیمانے پر متعدد مسلمانوں نے خیر مقدم کیا،کہنہ مشق صحافی شاہد صدیقی سے لے کر سوشل میڈیا پر حلقہ اثر رکھنے والے تحسین پوناوالا اور زینب سکندر بھی حکومتی اقدامات کو سراہنے والوں میں شامل ہیں۔ مدنیوں کی طرح یہ حلقے بھارت کے موجودہ حقائق(جس سے مراد بی جے پی اور آر ایس ایس کی بالا دستی ہے) کو عملیت کی نظر سے دیکھنے کے قائل ہیں۔
تاہم یہ مکمل طور پر عملی نکتہ نظر نہیں۔
مدنی صاحبان سے کہاں چوک ہوئی:
باوجو یہ کہ مدنی صاحبان اور مسلم اشرافیہ کے چند لوگ بی جے پی اور آر ایس ایس کو ’’مائل‘‘ کرنے اور مخصوص معاملات میں ان کی حمایت کرنے کی ڈگر پر ہیں ، ان میں سے مؤخر الذکر نے مسلمانوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔
مدنی صاحبان متحدہ قومیت کے تصور سے اس لیے منحرف ہوتے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے یہ حقیقت فراموش کردی ہے کہ سیکیولر ریاست کے قیام کا معاہدہ دو طرفہ تھا اور صرف مسلمان ہی اس کے پابندنہیں تھے۔
بی جے پی اور ہندوتوا نے باضابطہ طور پر بھارت کو ہندو راشٹر قرار نہیں دیا تاہم ان کے متعدد فیصلوں سے بھارتی ریاست کی سیکیولر حیثیت کمزورپڑ رہی ہے اور یہ فیصلے بھارت کے اپنی اقلیتوں سے کیے گئے عہد کے بھی خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر:
۔۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں گزشتہ چند برسوں میں اضافہ ہوا اور بی جے پی کی جانب سے انھیں روکنے کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس بی جے پی کے لیڈروں نے جھاڑ کھنڈ میں علیم الدین انصاری کے ہجومی قتل میں ملوث افراد کو پھولوں کے ہار پہنائے اور مغربی اتر پردیش میں محمد اخلاق کے قاتلوں کی عزت افزائی کی۔
۔۔شہریت کے قوانین میں ترمیم کے لیے متعارف کردہ بل میں پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی ملکوں کے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ ایک امتیازی قانون ہے جس میں مسلمانوں کو بھارتی شہریت کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔
۔۔۔ گئو رکھشا پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا بڑھتا ہوا اصرار نہ صرف ہندو عقائد کی بالادستی کے لیے کیا جارہا ہے بلکہ یہ دیگر لوگوں کے کھانے پینے کے انتخاب کی آزادی پر بھی قدغن ہے۔ گئو رکھشا اب اس حد تک پہنچ چکی ہے جہاں ہندووں کی خواہشات پر قانون کی حکمرانی کو قربان کردیا جاتا ہے۔
۔۔۔ عدالت کی جانب سے منسوخی کے باوجود مسلمانوں میں رائج ایک مجلس کی تین طلاق کو جرم قرار دیا گیا۔
۔۔۔ بی جے پی نے انتخابات ممیں اُس پرگیا ٹھاکر کو ٹکٹ دیا جس پر میلاگاؤں دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اس واقعے میں متعدد مسلمان جان سے گئے تھے۔ پرگیا ٹھاکر مہاتما گاندھی کے قاتل ،نتھورام گوڈسے کی تعریف و تحسین بھی کرچکی ہیں۔
۔۔۔ آرٹیکل ۳۷۰کی تنسیخ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے نظریاتی اہداف کے لیے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ آئین ریاست ہند کے جمیعت کے ساتھ عہد کا مظہر ہے ، اس میں دخل اندازی پر تشویش ہونی چاہیے تھی۔
ان مثالوں سے یہ تو واضح ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سیکیولرزم کے تحفظ کے لیے فکر مند نہیں۔ ابھی تو ہم نے بی جے پی کے قائدین کے ان بیانات پر بات شروع بھی نہیں کہیں جن میں وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر اکساتے اور ملک کو ہندو راشٹربنانے کے دعوے کرتے ہیں۔ اس کے بعد یکساں شہری قوانین اگلا قدم ہوسکتے ہیں، جو نجی زندگی سے متعلق ضابطوں کی آزادی، جمیعت کے نزدیک جس کی بہت قدر ہے، کے برخلاف ہوں گے۔
آر ایس ایس کو خوش کرنے اور ہندوستان میں اکثریت کی مطلق العنانیت کی راہ ہموار کرنے کے بجائے جمیعت اور مسلم اشرافیہ کو سیکیولرزم اور متحدہ قومیت کے تحفظ کے لیے حکومت کو جوابدہ بنانا چاہیے۔
(ترجمہ رانامحمدآصف)

Leave a reply