کیا ایران اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہو گا ؟

کیا ایران اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہو گا ؟

ایران اور افغانستان کے درمیان 1973 میں دو طرفہ پانی کے مطلق معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم، ایران میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے داخلی نقل مکانی کی بڑی وجہ پانی کی قلت اور بڑھتا ہوا گرم موسم کہا جاتا ہے۔ 2021 میں، تقریباً 41,000 ایرانی بوجہ جنگلات کی کٹائی، خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے اپنے قدرتی رہائش گاہوں سے بے گھر ہوئے۔ایرانی اور افغان کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ، ایران دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان کم پانی چھوڑ رہا ہے جو کہ دوطرفہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایران کا جنوب مشرقی علاقہ جو خشک سالی سے شدید متاثر ہے، افغانستان سے آنے والے پانی پر کثیر انحصار کرتا ہے۔

افغانستان کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈیم کھلنے کے باوجود بھی پانی ایران میں نہیں جائے گا۔ دو طرفہ آبی معاہدے کے مطابق افغانستان دریائے ہلمند سے سالانہ 850 ملین کیوبک میٹر پانی ایران کو فراہم کرنے کا پابند ہے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ جب سے طالبان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے، اس نے معاہدے کے تحت طے شدہ پانی میں سے صرف 4 فیصد پانی حاصل کیا ہے (حسن کاظمی قومی، ا ایرانی خصوصی نمائندہ براے افغاستان : RFE/RFL ریڈیو فاردا، 19 مئی، 2023)۔

پانی کی قلت کی کے بڑھنے سے ایران کو اپنی عوام کی طرف سے احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کے برعکس افغانستان میں جاری خشک سالی، جو 2021 سے 2022-2023 تک برقرار رہی، اس نے پانی کے بحران کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ 20 نومبر 2022 کی یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق، "79 فیصد گھرانوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پینے، کھانا پکانے، نہانے یا طہارت جیسی اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے پانی ناقافی ہے۔ خوراک کی قلّت اور گھرداری پر تباہ کن اثر۔”

افغانستان کے کم پانی رکھنے کے دعوے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، بلخصوص کمال خان ڈیم کی 2022 میں تکمیل کے مدنظر۔ افغان صدر غنی نے ایران کو مفت پانی کی فراہمی بند کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا، اور ایران کے ساتھ پانی کے بدلے تیل کے تبادلے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سے افغانستان کی پانی کی قلّت کے دعووں پر سوالات اٹھتے ہیں۔
کیا کمال خان ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے باوجود بھی افغانستان میں سابقہ خشک سالی برقرار ہے یا نہیں، اس کا اندازہ صرف آزاد ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ ان سے معاملات کی جانچ اور ایک فیصلہ تک پہنچنا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہونا چاہئے۔

Leave a reply