وہ اپریل کی ایک خوشگوار سی صبح تحریر : شفقت سجاد دشتی

0
31

وہ اپریل کی ایک خوشگوار سی صبح تھی، میں فیس بک کی تانکا جھانکی میں لگا ہوا تھا کہ میری نظر سے کسی خاتون کی ایک تحریر گزری، میں شاید سکرول کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا، لیکن تحریر کے عنوان نے میرے قدم باندھ دیے، ”وہ کون تھا“ ان کی شاید وہ پہلی نثری تحریر تھی جس کے بیانیے نے مجھے متاثر کیا، نجانے مجھے کیوں اس تحریر میں صاحبہِ تحریر کا عکس نظر آیا کہ جیسے انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی گوشہ حوالہ قرطاس کیا ہو۔۔۔۔۔ پھر میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی تحریریں پڑھنا شروع کر دیں، ہر تحریر مجھے خونِ دل سے سینچی ہوئی لگی، میرا بہت دل چاہا کہ میں ان تحاریر کی خالق سے بات کروں لیکن ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، ان کی تحریروں اور تصویروں نے ان کی شخصیت کا ایسا رعب جما تھا کہ میں کئی دن تک بس ان کی تصویر دیکھ کر اور تحریر پڑھ کر خوش ہو لیتا۔ پھر ایک دن ہمت کر کے میں نے ان سے بات کر لی، انہوں نے خوش دِلی سے میری اس جسارت کو قبول کر لیا۔۔۔۔ ان کی کہانیوں پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ کچھ عرصے بات بعد مجھے محسوس ہونے لگا کہ جس دن میری ان سے بات نہ ہو میرا وقت بے چینی میں گزرتا ہے، میں اپنی اس کیفیت کو کوئی نام دینے سے قاصر تھا۔ عمروں کی تفاوت کے باوجود وہ مجھے اچھی لگتی تھیں۔
کسی وجہ سے چند دن میری ان سے بات نہیں ہو سکی۔ میں اکثر سوچتا تھا ان کے بارے میں کہ حال میں وہ اتنی من موہنی اور باوقار ہیں تو عین عالم شباب میں کیسی ہوں گی۔؟
اس کا جواب مجھے ایک رات خواب کی صورت میں ملا
میں نے خواب میں انہیں دیکھا کہ میں خوابگاہ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں، کھلی چاندنی میں ایک لڑکی وہاں کھڑی ہے۔ میں خوابگاہ سے باہر نکل گیا۔ مجھے دیکھ کر میں نے آہستہ آہستہ قدموں سے فاصلہ طے کیا اور جب قریب پہنچا تو دیکھا وہ دراز قد لڑکی سر کو آنچل سے ڈھانکے سر جھکائے کسی ملکہ کی طرح تمکنت کے ساتھ خاموش کھڑی ہے۔ وہ مجھے دیکھی دیکھی سی لگی لیکن سمجھ نہیں آتا تھا کہ کون ہے؟ میں نے پھر بھی اس سے پوچھ لیا ’’کون ہیں آپ اور یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘ وہ اسی طرح سر جھکائے کھڑی رہی۔ سفید قمیص اور غرارے میں ملبوس، سر پر مہین جالی کا دوپٹہ، روشن پیشانی، ابروئے خمدار، حیا سے بوجھل پلکیں، رنگت جیسے کسی نے کچے دودھ میں سیندور گھول دیا ہو، عارض پر شفق کی ہلکی سی لالی، پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، گویا کلیوں نے کم کم کھلنا ان ہی سے سیکھا ہو۔ صراحی دار گردن، سڈول بازو، مخروطی انگلیاں، حنائی ہتھیلی کہ کبھی اس ہتھیلی میں مصری کی ڈلی رکھ کر پوچھا جائے کہ کون میٹھی تو مقابل سانس لینا بھول جائے۔ آگے کو سینے پر پڑی گندھی ہوئی چوٹی جیسے خزانے پر سیاہ ناگن کا پہرہ۔ میں نے آس پاس چاندنی کو دیکھا، یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ روشنی چاند کی ہے یا اس مہ جبین کی۔ میں مبہوت کھڑا دیکھتا رہا۔ اس وقت تو ہوا بھی ساکت تھی کہ خاموشی کی شہنائی نے گویا سہاگ کے سر میں راگ مالکوس چھیڑ رکھا تھا۔ جب سحر ٹوٹا میں نے اپنے پورے حواس جمع کرکے پوچھا ’’آپ! آپ کون ہیں؟ کیا نام ہے آپ کا؟ کہاں سے آئی ہیں؟‘‘۔ میں نے بیک وقت کئی سوال کردیئے۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا، پھر بانسری کا ساتواں سر چھڑا ’’ہم! بس ہم ہیں، آپ کوئی بھی نام رکھ لیجئے، کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں‘‘۔؟ اس نے تحیر سے بڑی بڑی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ میں نے سوچا شاید سوال غلط تھا، لیکن جواب بالکل صحیح ہے۔ حسن بس حسن ہوتا ہے، اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ نام تو بس ایک شناخت ہے، ایک پہچان، جس کی پہچان سب سے الگ ہو اس کا بھلا نام کیا ہوسکتا ہے۔ جس کے لئے ہر تشبیہ ہیچ ہو اس کا نام کیا ہو۔ ’’پھر بھی، پھربھی! آخر کون ہے یہ‘‘ میں سوچتا رہ گیا اور وہ خراماں خراماں چلتے ہوئے اوجھل ہو گئی، جیسے چمبیلی کی خوشبو کو اوس نے ڈھک لیا ہو۔ میں واپس خوابگاہ میں آ کر مسہری پر لیٹ گیا۔ نیند اس وقت پلکوں کی مسہری پر اتر آتی ہے، جب حواس اس کے حوالے کردیئے جائیں۔ لیکن وہ تو جاتے جاتے حواس بھی ساتھ لے گئی تھی، سو نیند بھی روٹھ گئی۔ ابھی صبح نمودار نہیں ہوئی تھی، شب نے کامدانی کی ردا سر پر ڈال لی کہ کہیں آفتاب کو جھلک نہ دکھلائی دے کہ میں برآمدے میں آبیٹھا۔ ابھی ہلکی ہلکی روشنی سی نمودار ہوئی ہی تھی کہ میں پھر اٹھا اور اس جگہ پہنچ گیا، جہاں رات وہ کھڑی تھی۔ میں نے سوچا شاید کوئی نشان، کوئی پتہ، کوئی سراغ ہی مل جائے، لیکن وہ ایک خواب کی طرح سے آئی اور پلک کھلتے ہی غائب ہو گئی۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
رات کا خواب فلم کی طرح پردہ بصارت پر اتر آیا۔ اچانک روشنی کا جھماکا سا ہوا، اوہ یہ تو وہی افسانہ نگارخاتون ہیں جنہیں میں ملکہ کہتا ہوں جو دوشیزہ بن کر میرے خواب میں آئی تھیں۔
میری کفیات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہیں اس سے قطع نظر بطور افسانہ نگار میں ان کے حوالے سے بس اتنا کہوں گا کہ ملکہ۔۔۔۔۔۔۔! بہت عمدہ لکھتی ہیں، واقعی ان کے ہاتھ میں قلم روشنی بن جاتا ہے، کہیں طلسم تو کہیں خوشبو بن جاتا ہے ، کہیں فراق تو کہیں نغمہ، کہیں راگ تو کہیں تصویر بن جاتا ہے ، کہیں پربت تو کہیں جھرنا، کہیں شیشے کا خواب نگر بن جاتا ہے، ان کے لفظ ایسے ایسے منظر تراشتے ہیں کہ ، بصارت و بصیرت، شمس و قمر کے مقابل آ جاتے ہیں، ایک با وقار ہستی کی با وقار سی تحریریں جگنو بن کر میرے دل میں روشنی کرتی ہیں
جن کی نادرتشبیہات ‘خوب صورت استعارے‘ نفیس علامتیں اوران گنت تلمیحات نے ایک سماں باندھ دیتی ہیں ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان چھوئے اور ان کہے لفظوں کو ہی روشن کیا ہے ۔یہی لفظ جب موقع و محل کی مناسبت سے جملوں میں ترتیب پاتے ہیں تو ان لفظوں کے جمال کی دوشیزگی نکھرآتی ہے۔

@balouch_shafqat

Leave a reply