وہ تو امیر عمر تھے. رضی اللہ عنہ — عاشق علی بخاری

0
87

دنیا عظیم لوگوں سے بھری ہوئی ہے. اور کچھ شخصیات ایسی تھی جو منفی کاموں کی وجہ سے مشہور ہوئیں، ظلم و جبر، فساد فی الارض کی جو نشانی تھیں، وہ صفحہ دنیا پہ آئے لیکن اس زمین پر ایک کلنک کی نشانی بن کر رہ گئے. البتہ بہت ساری شخصیات دنیا اور لوگوں کے لیے سراپا خیر تھے اور دنیا کے نظام کے آئیڈیل کی حیثیت بن گئے. لوگ ان کے دشمن ہونے کے باوجود ان کے دیے ہوئے نظام کے معترف ہی نہیں بلکہ اپنے ملک میں اس کا نفاذ بھی کرتے ہیں.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ بھی ہے. جو زمانہ جاہلیت میں اچھا تھا وہ اسلام میں بھی اچھا ہوگا. (الحدیث)

دیکھیے تو کون آرہا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکمل تیاری حالت میں آجاتے ہیں کہ کہہں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا دیں. فرمایا آنے دو.

اور پھر ان کا آنا مظلوموں کے لیے سہارا بنے، اسلام کے لیے قوت اور ظالموں کے سامنے مضبوط قلعہ بن گئے. یہ تو وہی عمر ہیں جن کے لیے دعائیں مانگی جارہی تھیں.

اللھم اھد عمرین، اے اللہ ان دونوں (ابوجہل و عمر رضی اللہ عنہ) میں سے جو محبوب ہے اس کے ذریعے عزت عطا فرما.

اور پھر جب آئے تو کیا ہی کمال شخصیت بنے. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھتے ہیں: فرمایا عمر کی قمیض اتنی لمبی ہے کہ وہ کھینچ رہے ہیں. تعبیر یہ کی کہ یہ دین میں زیادہ ہونگے.

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا خواب دیکھتے ہیں: فرمایا میں دودھ پیتا ہوں اور دودھ کی تری مجھے ناخنوں میں نظر آنے لگتی اور پھر عمر کو دیتا ہوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تعبیر پوچھتے ہیں فرمایا اس سے مراد علم ہے.

ان کا آنا یقیناً خیر ہی تھا کیونکہ وہ دین کا قلعہ تھے، وہ علم کے مینار تھے. وہ ایمان و اسلام کے لیے عزت کا سبب تھے اور ہیں. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہترین کارنامے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ بہترین مشیر ثابت ہوئے. حتی کہ آپ کے ذہن کی باتیں یا مشورے قرآن بن کر نازل ہوئے. آپ اپنی جان مال کے ذریعے سے دین کے لیے قوت بنے. اس کے بعد خلیفہ اول کے دور میں بھی آپ ان کی ہر طرح مدد و تعاون کرتے رہے. صفاتِ باکمال کا نتیجہ ہی تھا کہ آپ خلافتِ راشدہ کے دورے امیر کے طور پر منتخب کیے گئے.

یہیں سے آپ کا جوہر کمال کی حد کو پہنچنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دلوائے کہ دنیا میں آنے والے بے شمار بادشاہ آپ کے عشرِ عشیر کو بھی نہیں پہنچتے.

آپ کے کارناموں کی فہرست خاصی دلچسپ اور دنیا کے ٹھیکیداروں کو چونکا دینے والی بھی ہے.

آپ نے وہ کام اس وقت سرانجام دیے جب اس کا بڑی بڑی سلطنتوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا. آپ نے فوجی و پولیس کا نظام دیا، مجاہدین کے وظائف مقرر کیے، دودھ پیتے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا. اسلامی سرحدات کو توسیع دی. احتساب کا کڑا نظام قائم کیا. اہم چیزوں میں سے ایک "انصاف کی فراہمی” کو یقینی بنایا. چاہے وہ کسی سرکاری شخص سے ہی متعلق کیوں نہ ہو.

آپ رضی اللہ عنہ گو نا گو خصوصیات کی حامل شخصیت تھیں، جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین متین کا کام لیا اور پھر ان کی وہ دعا بھی قبول ہوئی.

اے اللہ مجھے شہرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شہادت عطا کرنا.

اللّھم إني أسألك شھادة في سبيلك. آمين

Leave a reply