خواتین کو جنسی ہراساں کیوں کیا جاتا ہے؟

0
40

خواتین کو جنسی ہراساں کیوں کیا جاتا ہے۔
معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ لباس کی وجہ سے ہوتا ہے تو برقعہ پہننے والی خواتین اور چھوٹی بچیوں کا کیا قصور ہے۔
یہاں تک کہ جانوروں تک کو نہیں بخشتے
اگر آپ کہتے ہیں کہ گھر سے باہر نکلنے کی وجہ سے ہوا تو کتنے کیسز ہیں جن میں گھر میں گھس کر ریپ کردیا گیا۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ اس لیے کیونکہ یہاں اپنی جنسی فرسٹریشن نکالنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، یہاں قحبہ خانے نہیں ہیں تو عرض ہے کہ جن ملکوں میں قحبہ خانوں کی کثرت ہے اور اویلیبلٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے تو وہاں ریپ کیسز کی شرح اس قدر زیادہ کیوں ہے۔
امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ریپ کیسز ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ ریپ کیسز ہیں، زنا باالرضا پر وہاں کوئی پکڑ یا قدغن نہیں ہے۔ 18 سال سے زائد عمر کا لڑکا یا لڑکی جیسے چاہے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ اس پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔
مزید اگر یہ بھی دیکھنا ہے کہ امریکہ میں ایک عورت کتنی محفوظ ہے تو یوٹیوب پر ویڈیوز موجود ہیں کہ نیویارک شہر میں کسی خاتون کو کس طرح چھیڑ ا جاتا ہے۔ a woman is cat called more than hundred times in a day, while she was walking through NYC.
لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ دنیا کے ساتھ موازنہ کرکے کہنا کہ ہمارے ہاں تو یہ مسئلہ اس قدر نہیں ہے۔ یہ سراسر چشم پوشی ہے۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رپورٹ کم ہوتا ہے۔ اکثریت ایسا کوئی بھی واقع رپورٹ ہی نہیں کرواتی۔ اس لیے دنیا کے حقائق دینے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ نا م نہاد تقدیس مشرق کے حدی خوان بنے پھریں جو اب بہت خال ہی کہیں اپنا وجود رکھتی ہے۔
لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اگر یہ سب کچھ کے باوجود بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں تو کیسے محفوظ ہوں گی۔
لیکن اس کو سمجھنے سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ پوری دنیا میں مرد خواتین کو اس بری نظر سے ہی کیوں دیکھتے ہیں تو معاملہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔ صرف چست یا تنگ کپڑے پہننا ایک فیکٹر ہوسکتا ہے مگر یہ وجہ نہیں ہے۔
وجوہات بہت ساری ہیں جو مل کر اس قدر دماغ کو خراب کردیتی ہیں کہ محرم رشتوں تک کا احترام بھی انسان بھول جاتا ہے۔
سب سے پہلے اور سب سے بڑی وجہ میڈیا انڈسٹری ہے۔ میڈیا سے مراد فلم اور فیشن اور میڈیا کے تمام شعبے ہیں ۔ آپ اپنی میڈیا انڈسٹری کو دیکھیں ، کیا یہاں عورت کو بیچا نہیں گیا، اور پھر یکمشت نہیں بیچا گیا ، بلکہ اب تو ناز الگ بکے اور انداز الگ، جسم بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے بیچا گیا۔
میں دنیا کی بات نہیں کرتا ، ہمارے اپنے ملک کو دیکھ لیں، چہرہ ایسا کہ ہر کوئی دیکھتا رہ جائے،
نظر اٹھے اور مڑ نا پائے،
آپ جہاں نظریں وہاں۔۔۔۔
تو یہ ساری ٹیگ لائن جو دن رات ہمیں ٹی وی اشتہارات کی صورت دکھائی گئی تھیں کیا ان کا مقصد عورت کی عزت کرنا سھنا تھا یا حوا کی اس بیٹی کو ایک پراڈکٹ بنا کر بیچنا تھا۔
پھر فلم انڈسٹری دیکھ لیں، دنیا بھر میں آڈلٹ سینز کے بغیر فلم نہیں بنتی، نیٹ فلکس کی شرائط میں شامل ہے کہ فلم میں ایسے سینز ہونا ضروری ہیں۔ سنسر بورڈ جیسے ڈھکوسلے تو صرف ہمارے ہوں ہیں۔ ڈھکوسلے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان سے جو کچھ پاس ہوجاتا وہ سب بھی جنسی جذبات کو بھڑکانے کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔
اب ہر طرف میڈیا میں ، بل بورڈز پر عورت کی بھرمار، یہاں تک کہ مردانہ ریزر بھی عورت ہی بیچے، یہ سب دیکھ کر جنسی فرسٹریشن اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔
پھر یہاں ایک دوسری وجہ کا آغاز کرتا ہوں ۔
کتنے لوگ ہیں جو شادیاں دیر سے کرتے ہیں۔ ضرورت انہیں بہت پہلے ہوتی ہے۔ بجا کہ شادی صرف اسی ایک ضرورت کا نام نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک ضرورت ہے۔ جب جائز طریقے سے یہ ضرورت پوری نہیں ہوتی تو پھر ایک انسان کب تک صبر کرسکتا ہے۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو پارسائی کا یہ بوجھ سہتے ذہنی مریض ہوجاتے ہیں۔ اور رہ گیا ہمارا مذہبی طبقہ تو معذرت کے ساتھ یہ مسئلہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔مجے پتہ ہے کہ یہ جملہ بول کر میں بہت سی توپوں کا رخ اپنی طرف کررہا ہوں مگر حقیقت ایسی ہی ہے۔ ماسوائے چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر یہی بھیڑ چال ہے۔
اس سب کے بعد دماغ تو سن ہوجاتا ہے کہ پھر حل کیا ہے۔
سن لیں جس طرح وجہ ایک نہیں ہے اسی طرح حل بھی ایک نہیں ہے۔ بلکہ ایک جامع لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ میرے جیسا بندہ چند گزارشات تو کر سکتا ہے مگر اس معاملے کو ہنگامی بنیاوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اختیار و ارباب حل و عقد کو ایک مربوط لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ جلد شادیوں کو رواج دیں۔ اور آگہی ضرور ہونی چاہیے۔ ہمارے قوانین جو ابھی تک برطانیہ نے بنائے تھے ، وہی چل رہے ہیں ۔ یہ قوانین رعایا کے لیے تھے۔ ان قوانین کو ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ قصہ مختصر حل بھی بہت ہوسکتے ہیں، بس اس کے لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں محفوظ رہ سکیں۔ ورنہ خوف کی فضا میں دم گھٹ جاتے ہیں۔ اور معاشرے مردہ ہوجاتے ہیں۔
حنظلہ عماد
@hanzla_ammad

Leave a reply