اسلام آباد: عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے پاکستان کے موجودہ ٹیکس نظام کو "انتہائی غیر منصفانہ اور بے ہودہ” قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے اور حکومت کو سفارش کی ہے کہ جائیداد کو مؤثر طریقے سے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ اس کا درست اندراج اور ٹیکس لگایا جا سکے۔
عالمی بینک کے مطابق، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بڑھتا ہوا بوجھ صرف اسی صورت میں کم ہو سکتا ہے جب ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے اور تمام ذرائع سے حاصل کی جانے والی آمدنی کو اس میں شامل کیا جائے۔ ادارے نے واضح کیا کہ موجودہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگرچہ قلیل مدتی فوائد حاصل ہو رہے ہیں، لیکن طویل مدتی بنیادوں پر ملک کی آمدنی کے امکانات ضائع ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی ترقیاتی پالیسیوں کے حوالے سے پائڈ کے وائس چانسلر، ندیم جاوید نے بھی اہم انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد کمیشن کی صورت میں ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ آڈیٹر جنرل پاکستان (AGPR) کے بغیر 5 سے 7 فیصد کمیشن کے بغیر کوئی بل کلیئر نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایک حقیقت ہے اور سب کو معلوم ہے”۔ورلڈ بینک کے لیڈ کنٹری اکنامسٹ، ٹوبیاس ہاک نے اسلام آباد میں پائڈ کے زیر اہتمام "پاکستان کا مالیاتی راستہ: شفافیت اور اعتماد کو فروغ دینا” کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ "زرعی آمدنی پر صوبائی سطح پر ٹیکس ایک مثبت قدم ہے، لیکن اب جائیداد کے شعبے کو بھی درست طریقے سے رجسٹر اور ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے”۔
ٹوبیاس ہاک نے مزید کہا کہ "ڈیجیٹل نظام کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اور تمام آمدنی کو اس میں شامل کرنا تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے”۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 24 کروڑ کی آبادی میں صرف 50 لاکھ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، اور زیادہ تر ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس (GST) کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ "پاکستان کا ٹیکس نظام انصاف کے اصولوں کے لحاظ سے غیر منصفانہ ہے، اگر ملک صرف 50 لاکھ فائلرز کے ساتھ چلتا رہا تو اس سے کوئی دیرپا حل ممکن نہیں”۔
پرائم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر علی سلمان نے ٹیکس نظام میں وضاحت کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ "نظام میں زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے، اور ودہولڈنگ ٹیکس کی تعداد کو کم کیا جانا چاہیے”۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 88 ودہولڈنگ ٹیکسز ہیں، جن میں سے 45 ٹیکسز کی آمدنی ایک ارب روپے سے بھی کم ہے۔