وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کو سربراہ مقر کرنے پر ملک بھر کی منتخب وکلاء تنظیموں کی طرف سے اعتماد کے اظہار کو خوش آئند قرار دے دیا.
وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک بھر کی منتخب وکلاء تنظیموں کی طرف سے اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے،عدلیہ کی آزادی اور معزز چھ جج صاحبان کے خط پر سیاست نہیں ہونی چاہیے،ملک بھر کی منتخب وکلاء تنظیموں نے معاملے کی سنگینی کو سنجیدگی سے لیا ہے اور سیاست سے دور رکھا ہے،پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعلامیے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کے بارے میں ان کی سنجیدگی کے مظہر ہیں ، خیبر پختونخوا بارکونسل، پنجاب بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل نے بھی کمیشن اور جسٹس تصدیق جیلانی کی تقرری پر اعتماد کا اظہار کیا،پشاور ہائی کورٹ بار، ایبٹ آباد ہائی کورٹ بار، لاہور بار ایسوسی ایشن، ملتان ہائی کورٹ بار اور بہاولپور ہائی کورٹ بار جیسی بڑی منتخب وکلاء تنظیموں کی طرف سے اعتماد کا اظہار ایک مثبت پیشرفت ہے،حکومت چاہتی ہے کہ سچائی قوم کے سامنے آئے تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی شکایات پیدا نہ ہوں،شہباز شریف کی قیادت میں حکومت اور کابینہ عدلیہ کی آزادی اور دستور میں طے کردہ ریاستی اختیارات کی تقسیم کے اصول کی قائل ہے
پاکستان اور سپریم کورٹ بار نے ججز کے خط کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے انکوائری کمیشن کی سربراہی جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو دینے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے چیف جسٹس کے استعفے کے مطالبات کی شدید مذمت، تنقید اور استعفے کے مطالبات کو مسترد کردیا؛ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی تشکیل کے فیصلے کا خیرمقدم اور حمایت کی۔
پشاور ہائی کورٹ بار نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی تشکیل کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے چیف جسٹس کے استعفیٰ کے مطالبے کو غلط، غیر آئینی اور قابل مذمت قرار دیا۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد بینچ نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کے قیام کی حمایت کی اور چیف جسٹس اور چیف جسٹس IHC کے استعفے کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو نیک شگون قرار دیا۔ عہد کیا کہ وکلاء برادری چیف جسٹس اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ سیاسی جماعت کی جانب سے استعفے کا مطالبہ قابل مذمت ہے۔
پنجاب بار کونسل کا خیال ہے کہ عدلیہ پر دباؤ اور اس کے معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔ تمام اداروں پر زور دیا کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ پنجاب بار کونسل نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو نیک شگون قرار دے دیا۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان نے عدلیہ پر دباؤ اور اس کے معاملات میں مداخلت کو ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیا۔ پولیٹیکل پارٹی کی جانب سے چیف جسٹس کے استعفیٰ کے مطالبے کو غیر آئینی اور قابل مذمت قرار دیا۔ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو نیک شگون قرار دیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی انکوائری کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو سراہا۔ چیف جسٹس کے استعفے کے مطالبات کو انتہائی نامناسب قرار دیا گیا۔
ججز خط،انکوائری کمیشن،300 سے زائد وکلا کا سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ
دوسری جانب ملک بھر کے 300 سے زائد وکلا نے خط لکھ کر سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے،انکوائری کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی بھی خط لکھنے والوں میں شامل ہیں، سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی کا کہنا تھا کہ میں اپنے والد کے حوالے سے پراعتماد ہوں، لیکن یہ الزام بڑا ہے، اس لیے سپریم کورٹ خود اس پر نوٹس لے،یہ ہمارا پرنسپل سٹینڈ ہے،وفاقی حکومت کی طرف سے انکوائری کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے خط میں لکھا گیا ہے کہ وکلا نے اس طرز عمل پر اپنے گہرے عدم اطمینان اور مایوسی کا اظہار کیا ہے اور یہ عمل عدلیہ کی آزادی کے اصول کے خلاف ہے،انکوائری کمیشن کو تحقیقات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ٹی او آرز کے مطابق کام کرنا ہوگا، مزید یہ کہ انکوائری کا ٹائم فریم اور رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا یا نہیں یہ اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا۔ وفاقی حکومت کو دیے گئے اس طرح کے اختیارات کے پیش نظر انکوائری کمیشن عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری اختیارات سے محروم ہو جائے گا،وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں کی جانے والی انکوائری ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کا تحفط یہ انکوائری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی انکوائری کمیشن اور اس کی کارروائی مکمل طور پر ساکھ کو متاثر کرے گی،یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کے الزامات لگائے گئے ہوں، جسٹس (ریٹائرڈ) شوکت عزیز صدیقی نے اسی طرح کے الزامات لگائے تھے اور اس کے نتیجے میں انہیں بغیر رسمی کارروائی کیے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا،سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے،شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، سپریم کورٹ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور تمام ہائی کورٹس کے ساتھ مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے تاکہ آئندہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش کی اطلاع دی جا سکے،ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے،مؤثر اور شفاف طریقے سے اس معاملے کو نمٹایا جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی پر حرف نہ آئے۔
جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔
ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر
ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر
ججز کے خط نے ثابت کردیا کہ نظام انصاف مفلوج ہوچکا، لہذا چیف جسٹس مستعفی ہو ، پی ٹی آئی
6 ججز کا خط ،پی ٹی آئی کا کھلی عدالت میں اس پر کارروائی کا مطالبہ
6ججزکا خط،سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری
وفاقی حکومت نے ججز کے خط پر تحقیقات کرنے کا اعلان کردیا
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیر صدارت اجلاس ختم
ایسا لگتا تحریک انصاف کے اشارے پر ججز نے خط لکھا،سپریم کورٹ میں درخواست دائر
ججزکا خط،اسلام آباد ،لاہور ہائیکورٹ بار،اسلام آبا بار،بلوچستان بار کا ردعمل
عدالتی معاملات میں مداخلت، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط
ججز کا خط،انکوائری ہو،سپریم کورٹ میں اوپن سماعت کی جائے، بیرسٹر گوہر
ججز کا خط ،پاکستان بار کونسل کا انکوائری کا مطالبہ
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط آنے کے بعد اگلے روز وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے جا رہی ہے، کسی نیک نام ریٹائرڈ شخصیت سے اس کمیشن کی سربراہی کی درخواست کی جائیگی،