یقین اک صدا ہے بقلم:جویریہ بتول

0
32

یقین…!!!
(بقلم:جویریہ بتول)۔

یقین اک صدا ہے…
یقین تو وفا ہے…

دل کی سر زمیں پر…
جڑ جو پھیلائے…
شجرِ طیبہ بن کر…
عمل سے کھلکھلائے…
یقین تقاضۂ محبّت…
یقین تو دوا ہے…
وہ بھی سخت لمحے…
جو لگتے ہوں محال…
خیال میں بھی اپنے…
گزر جاتے ہیں خود پر…
تو یقین پکار ہے اُٹھتا…
یہی تو راہِ رضا ہے…!!!
یاں حوصلے چٹانوں جیسے…
نہیں ریت کے مکانوں جیسے…
نشیب کہیں فراز ہیں…
سوز ہیں کہیں ساز ہیں…
راہوں کا شکوہ ہے نہ…
موسموں پہ کوئی خفا ہے…
درد کی چوٹ سے جب…
اُٹھتی ہیں کئی ٹیسیں…
شدت کی دوڑتی ہوئی…
محسوس ہوتی ہیں لہریں…
ہر ایسی بے چینی میں…
بنتا یقین ہی شفا ہے…
رضا کی تلاش میں پھر…
یہ اور وہ نہیں ہے…
جو جو بھی ہے ملتا…
جسم و روح اُسی کے…
تابع ہیں ہو کے چلتے…
پھولوں کی ہو خوشبو…
یا راستہ کانٹوں بھرا ہے…
یقین کی راہوں پر کبھی…
ہوتی نہیں کثرتِ سوال…
نہ اگر مگر کا کچھ وبال…
شکوہ فضا کی ناسازی…
نہ نفس کی کوئی در اندازی…
اطمینان کا بنتا ہے سَمندر…
کہ یہ سکون کی برکھا ہے…
جو دل کی دھرتی پر…
برستے ہوئے رم جھم…
دیتی ہے اِک قوت جنم…
مایوسیوں کو بہا کر…
اُداسیوں سے بچا کر…
جو چہرے کو مسکرائے…
پھر حوصلے کی جِلا ہے…
اَجر کی اُمید کا دائرہ…
بڑھتا ہے یہاں مسلسل…
آنکھوں سے چھلکتی چمک…
ہے راستوں کی رونق…
مگر سفر کا اِک تسلسل…
اس شاہراہ کا تقاضا ہے…
یقین کا سفر منزل کے…
ستونوں سے جڑا ہے…
کہیں راحتوں کے سائے…
کبھی امتحاں بھی کڑا ہے…
وسوسہ ہے نہ بہکاوا مگر…
کہ یہاں شان ہی جُدا ہے…!!!
===============================

Leave a reply