یتیم کی تکریم تحریر : انجینیئر مدثر حسین

0
35

یتیمی ایک ایسا امتحان ہے جو کسی بھی شخصیت پر اس آزمائش بن کر آ پڑتا ہے. بلاشبہ اس میں اللہ رب العزت کی بے پناہ مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان پر واضح ہوتی ہیں. لیکن اس امتحان کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حقیقی مخلص اور بناوٹی رشتوں کی اچھے سے پہچان ہو جاتی ہے. اس زمرہ میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بھی زکر کیا ہے اور یتیم کی تکریم کا زکر ہے.
1. یتیم کی تکریم کا کیا مطلب ہوا؟
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا.
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷) سورۃ الفجر
ترجمہ: ہرگزنہیں بلکہ تم یتیم کی عزت (تکریم) نہیں کرتے۔
آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یتیم کی مدد کی بات نہیں بل اس کی عزت اور عزت نفس کا خیال رکھتے ہوے اس کی مدد کی بات ہے.
اس آیت کے پہلو میں بہت سے موضوعات موجود ہیں جن میں 1. یتیم کے مال کی حفاظت اور بلوغت پر اسے لوٹانا.
2. اس کی پرورش کے پہلو
3. اس کے ساتھ اخلاق و اخلاص
وغیرہ
فی زمانہ کیمرا ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے یتیم کی عزت نفس کا قتل فرض اولین سمجھا جاتا ہے.
اللہ کی رضا ہے تو زمانہ میں رسوا نا کر صاحب
تیرے چند ٹکے اس کی عزت نفس بیچ نہ بیچ ڈالیں.

یہاں فی زمانہ مال کو اس لیے تقسیم کیا جاتا ہے کہ کوئی دیکھے تو کہے صاحب بڑا رحم دل ہے. او بھائیو رحم قبول کرنے والے کا فرمان بھی سنو. آپ کا صدقے، خیرات کی نہیں یتیم کی عزت کی بات ہے. زمانے کے سامنے عزت اور گھر کی چاردیواری میں اس کی تزلیل؟
یہ کہاں کا انصاف ہے؟
یہ کفار کا طریقہ ہے کفار جب یتیموں کو دھکے دیتے ان کی تزلیل کرتے اللی کریم نے قرآن میں سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا.
فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ یعنی دین کو جھٹلانے والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
فیصلہ کیجئے ہتہم کے ساتھ ظلم تو کفار کا طریقہ ہے. مسلمان کو تو یہ زیب ہی نہیں دیتا
یتیم کی پرورش تو رب العالمین کی رضا کیلئے ہونی چاہیے پھر یہ زمانے میں دکھاوا کیسا؟
جب رضا الہی مقصود ہو تو فرمان الہی کو مد نظر رکھنا لازم ہے. رب کریم یتیم کی تکریم کا حکم فرماتا ہے. یاد رکھیں یتیمی اس کا قصور نہیں لیکن ہاں! آپ کا امتحان ضرور ہے کہ کس طرح اس کی پرورش کی مال میں خیانت تو نہ کی. اس کی وراثت کھا تو نہیں گئے. بےشک اسلام کامل دین ہے. اللہ کریم نے خاص یتیم کا تزکرہ ہی اسی لیے فرمایا کیوں کہ کمزور پر ظلم آسان ہوتا ہے. طاقتور تو مزاحمت کر لیتے ہیں. یہاں اللہ رب العزت نے یتیم کے حق میں خود بات ارشاد فرمائی ہے. پتا چلا یہ معاملہ اتنا آسان نہیں کہ جہاں دیکھو یتیم کی تزلیل کرو اور اس کا حق کھا جاؤ.
اللہ رب العزت نے قرآن مجید ارشاد فرمایا وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے (سورۃ النسا.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں سب سے اچھا وہ گھر ہے جس میں یتیم سے اچھا سلوک کیا جائے جبکہ برا وہ گھر ہے جس میں یتیم سے برا سلوک کیا جائے۔ ‘‘ ( سنن ابن ماجۃ، الحدیث: ۳۶۷۹
ایک جگہ فرمایا: بیواؤں اور مسکینوں کی پرورش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ ‘‘

( سنن ابن ماجہ الحدیث: ۲۱۴۰)
آئیے ہم اپنی اصلاح کریں. کمزوروں کی یتیموں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی امداد کریں. کیمرا کی آنکھ نا بھی دیکھے رب کی آنکھ ضرور دیکھتی ہے. احسان کیجیے. اللہ رب العالمین نے سورہ الرحمن میں احسان کے بدلے احسان کا وعدہ فرمایا ہے. ہاد رکھیں یتیم ہوتے دیر نہیں لگتی. آج احسان کیجیے تاکہ کل کو اللہ آپ کے ساتھ احسان کرنے والے پیدا فرمائے.
فیصلہ آپکا

@EngrMuddsairH

Leave a reply