یہ خوشیاں تم بن ادھوری قلمکار: عاشق علی بخاری

0
78

یہ خوشیاں تم بن ادھوری

قلمکار: عاشق علی بخاری

عید الفطر ہو یا بقرعید یا پھر خوشی کا کوئی تہوار والدین کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے. اکثر ان مواقع پر اولاد فرطِ جذبات سے نڈھال ہوکر افسردہ اور آنسو بہاتی نظر آتی ہے. والدین کی قربانیوں پر جس قدر بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے. صرف انسان کا ان کے توسط سے دنیا میں آنا ہی اتنی بڑی نعمت ہے انسان خصوصاً مرد تو گمان بھی نہیں کرسکتا. ذرا سوچیں! ایک شخص گمنامی سے نکل کر اچانک پورے معاشرے میں مشہور ہوجائے اس کی خوشی کی کیا انتہاء ہوگی؟
والدین بھی ہمیں عدم سے عالم دنیا میں لانے کا واحد ذریعہ ہیں اگر آج وہ نہ ہوتے تو ہماری کوئی پہچان بھی نہ ہوتی.
ایک جوڑے کی شادی کے بعد سب سے پہلی تمنا اولاد ہوتی ہے، یعنی ہمارے بننے والے والدین سب سے پہلے ہمارے متعلق سوچتے ہیں. کلام مجید والدین کے تذکرے سے بھرپور ہے وہاں سے ہم سیکھ کر والدین کی قدر و منزلت کو پہچانیں اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اچھی اولاد ثابت ہوں. ان کے لئے نیک نامی اور آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث بنیں. سال بسال ایصال ثواب نہیں بلکہ ہر روز فرائض و نوافل کے ذریعے اپنے والدین کے اکاؤنٹ میں نیکیاں منتقل کرنے کا سبب بنیں. اس کے ساتھ ساتھ قرآنی دعا رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا پڑھتے رہیں ایک تو اس دعا کو باترجمہ پڑھنے سے اپنے بچپن کے گزرے ایام یاد رہیں گے کہ کس طرح والدین نے محنت، مشکلات کے ساتھ ہمیں پالا دوسرا ان کے لئے اللہ رب العالمین سے رحم کی اپیل ہوگی. والدین کی مشکلات اگر دیکھنی ہوں تو ایک مثال سے سمجھیں، راستے میں کھڑا درخت ہر گزرنے والے کو ہرا بھرا، مضبوط اور لہراتا نظر آتا ہے لیکن پس منظر میں اس پر پڑنے والی دھوپ، بارش، تیز ہواؤں کے جھکڑ، بدلتے موسموں کے تغیرات کسی کو نظر نہیں آتے. والدین دن، رات سردی، گرمی اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے انتھک محنت کرتا ہے اور والدہ کی تمام مشکلات ایک طرف بچے کی پیدائش کا مرحلہ ایک طرف اور جب ہم اپنی والدہ کے ہاتھوں میں آتے ہیں تو کوئی شخص بھی نہیں کہہ سکتا کہ مکمل نو مہینے اور پھر پیدائش کے تکلیف دہ مراحل سے گزر کر ہمارے دنیا میں آنے کا باعث بنی ہے.
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے چند تہوار یا مخصوص ایام کیا حیثیت رکھتے ہیں؟

Leave a reply