یس سر سے ابسلیوٹلی ناٹ تک کا سفر .تحریر: سنگین علی زادہ

0
43

سوال:
کیا پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے معاملے میں اتنا ہی غیر سنجیدہ ہے کہ بیس سال پہلے ریاست نے ایک فیصلہ کیا تھااور بیس سال بعد پاکستان 180 ڈگری کا یوٹرن لے کر الٹا پھر گیا؟ یعنی بیس سال پہلے امریکہ کو اڈے دیے، اتحادی بن کر یس سر کیا تو اب بیس سال بعد ابسلیوٹلی ناٹ کیوں کر رہا ہے؟ جس طرح آج سے بیس سال پہلے کیے گئے مشرف کے ایک فیصلے کو عمران خان اسمبلی میں آج غلط قرار دے رہے ہیں، کیا اب سے بیس سال بعد کا کوئی حکمران اسمبلی میں کھڑے ہو کر عمران خان کے موجودہ فیصلے کو بھی غلط قرار دے رہا ہو گا؟ کیا ہم خارجہ پالیسی کے معاملے میں یوں ہی کوہلو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھومتے رہیں گے؟
جواب:
1
نائن الیون سے چالیس سال پہلے امریکہ نے افغان جنگجوؤں کو روس کے خلاف کھڑا کر کے پوری دنیا میں ج ہ ا د شروع کروایا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے انہی لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ایک سو اسی ڈگری کا ٹرن لیا۔ تب نا تو آپ نے امریکہ کو کوہلو کا بیل قرار دیا نا ہی آپ کو امریکی خارجہ پالیسی دائرے میں گھومتی دکھائی دی۔ بلکہ آپ نے دل و جان سے امریکہ کے اس فیصلے کی تائید کی۔ آج اگر پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ہے تو آپ کو تکلیف کیوں ہے؟
2
دنیا کی ہر ریاست میں خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا اور بنیادی مقصد ریاست کا مفاد ہوتا ہے۔ نائن الیون سے دو سال پہلے پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے معاشی اور ملٹری پابندیوں میں جکڑا جا چکا تھا۔ ہم ایٹم بم بنا چکے تھے مگر حالات واقعی گھاس کھانے والے بنتے جا رہے تھے۔ ایسے خراب معاشی حالات میں امریکہ کے ساتھ جنگ شروع ہوتی تو یہ دانشور جو آج مشرف پہ اڈے دینے کےلیے اعتراض کر رہے ہیں، وہ گھاس کھا کھا کے مر چکے ہوتے اور ان کی بھٹکتی آتما مشرف کو اڈنے نا دینے کی وجہ سے پورے پاکستان میں گالیاں دیتی پھرتی۔

3
آج عمران کے ابسلیوٹلی ناٹ اور مشرف کی یس کے درمیان بیس سال کا فرق ہے۔ ان بیس سالوں میں بہت کچھ بدلا ہے۔ مثلاََ
بیس سال پہلے افغان سٹوڈنٹس کے ساتھ دنیا کا ایک بھی ملک نہیں کھڑا تھا آج درجن بھر ملک ان کے ساتھ ہیں۔
بیس سال پہلے کا چین زمین پہ تھا آج آسمان پہ ہے اور امریکہ کو ٹکر دینے کےلیے پوری طرح تیار ہے۔
بیس سال پہلے کا روس معاشی طور پر بدحال تھا اور امریکہ اسے مردہ ریچھ قرار دے چکا تھا۔ آج وہ ریچھ امریکا کو جِن جپھا ڈالنے کےلیے ہوشیار کھڑا ہے۔
بیس سال پہلے افغانستان میں امریکہ کی موجودگی سے چین اور روس دونوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا مگر آج ہے۔
بیس سال پہلے کوئی سی پیک نہیں تھی، کوئی گوادر پورٹ نہیں تھی جن کی وجہ سے چینی مفادات کو خطرہ ہوتا اور وہ امریکہ کو یہاں سے نکالنے کےلیے پاکستان کا ساتھ دیتے۔ آج یہ سب کچھ ہے اور وہ پاکستان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں۔
ایسے آئیڈیل حالات اگر عمران خان کے بجائے مشرف کو اس وقت ملتے جیسے آج ہیں یقیناََ مشرف امریکہ کو ناں کرتا۔
مگر مشرف نے ہاں کی اس لیے کہ
1 پاکستان اس وقت اس قابل نہیں تھا کہ افغانستان کی جنگ کو اپنے گھروں میں داخل کرے۔
2 پہلے سے موجود معاشی پابندیوں کو ختم کروانے کے بجائے دوگنا کرے۔
3 بھارت کو موقع دے کہ اپنے اڈے امریکہ کو دے اور وہ بحرہِ ہند کے پانیوں سے ہوتا ہوا بھارت میں ڈیرہ لگائے، وہاں سے پاکستان پہ حملہ کرے اور پاکستان کو کھنڈر بنا کر یہاں اڈے بنانے کے بعد یہاں سےا فغانستان کو فتح کرے۔

اوپر لکھا ہےکہ دنیا کی ہر ریاست کی خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ مشرف نے ریاست کے مفادات کا تحفظ کیا۔ آج بیس سال بعد ریاستی مفاد کا تحفظ امریکہ کو جگہ دینے کے بجائے نکالنے میں پوشیدہ ہے لہذا ہم نے یہی کیا۔ یہی امریکہ نے کیا تھا۔ چالیس سال پہلے جو م ج ا ہ د تھے چالیس سال بعد وہ دہشت گرد تھے۔ یہی دنیا کی ہر ریاست کرتی ہے۔ یہی مثال چودہ سو پہلے مدینہ کی ریاست میں بار بار ملتی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے تحفظ کےلیے یہودیوں جیسی قوم کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ پھر ریاستِ مدینہ کے تحفظ کےلیے ہی انہی یہودیوں کے ساتھ جنگ کی گئی۔ ریاستی مفاد کے تحفظ کےلیے ریاستِ مدینہ نے مکہ کے کفار کے ساتھ صلحِ حدیبیہ کی تھی۔ اور پھر ریاستی مفاد کے تحفظ کےلیے ہی انہی کفارِ مکہ کے ساتھ جنگ کی گئی تھی۔ بلاشبہ ریاستِ مدینہ اور ریاستِ پاکستان کے مفادات میں یقیناََ فرق ہے۔ مگر یہ حقیقت کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ وہ ریاستِ مدینہ اور یہ ریاستِ پاکستان دونوں مسلمان ریاستیں ہیں۔ آپ مشرف کے فیصلے کے بجائے اس فیصلے اثرات دیکھو۔
کیا بیس سال یہاں رہ کر امریکہ کوئی کامیابی لے سکا؟
کیا افغان سٹوڈنٹس ختم ہو گئے؟
کیا آج پھر افغان سٹوڈنٹس اسی طرح طاقتور نہیں؟
کیا پوری دنیا میں امریکہ بدنام نہیں ہوا کہ مٹھی بھر جنگجوؤں کو ختم نہ کر سکا؟
اور سب سے بڑھ کر،
کیا بیس سال بعد ہی سہی پاکستان اس قابل نہیں ہوا کہ امریکہ کو ابسلیوٹ ناٹ کہہ سکے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر دکھ کاہے کا ہے ببوا؟
تحریر: سنگین علی زادہ۔

Leave a reply