یومِ وفات: علامہ محمد اقبال ، تحریر:کنزہ محمد رفیق

4 ہفتے قبل
تحریر کَردَہ
iqbal day

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی خوابیدہ قوم کی بیداری اور بہبود کے لیے اپنی زندگی تیاگ دی، مگر ہم آج کہاں کھڑے ہیں ؟
کہاں تک ان کی شاعری کی اور ان کے خیالات کی تقلید کی ہے ؟
ہم آج ان کی تصانیف اور ان کے نظریات کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو نفس کے حوالے کر بیٹھے ہیں۔ اور یوں خود کو دنیا میں غیر حاضر قرار کر دے کر ہم اللّٰہ تعالیٰ کے اس بیش قیمت تحفے سے سراسر انحراف کر رہے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص کے لیے اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ ” خودی” کو نہ پا لے۔
آخری خودی ہے کیا ؟
خودی انسان میں پوشیدہ خوبیاں ہیں، اس میں پنہاں طاقتیں ہیں، جو انسان ان گوہر نایاب تک پہنچ جاتا ہے، اسے کامیابی سے کوئی نہیں تھام سکتا۔
کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں خودی کی تربیت اور پرورش کامیابی کے حصول کے لیے شرطِ اول ہے، چوں کہ خودی زندہ اور پائندہ ہوگی تو کائنات آپ کے آگے جھک جائے گی، اور اگر خودی بیدار نہ ہو تو وہی ہوگا جو آج ہر جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ڈپریشن، ڈپریشن اور ڈپریشن!
ہائے! میری دنیا، میری دنیا، میری دنیا۔
دنیا کو پانا ہے تو خودی کو پانا ہوگا، خود کو ڈھونڈیے دنیا خود آپ کو ڈھونڈے گی۔
اقبال اپنی قوم پر مہربان تھے، وہ اپنے عوام کو باشعور، کامران اور اونچا اونچا اڑتے دیکھنے کے خواست گار تھے۔ مگر ہم ہیں فرنگیوں کے پیروکار، آخر یہ بات کب ہمارے شعور کا حصہ بنا گی کہ وہ ہمیں تلف کر دینا چاہتے ہیں، اور ہمارے رہ نما ہمیں سرفراز دیکھنا چاہتے تھے۔
اقبال نے فرمایا:
"خودی کا سرِ نہاں لا الہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الااللہ ”
خودی تک انسان تب پہنچتا ہے جب وہ اللّٰہ کو پہچاننے لگتا یے، چوں کہ خودی کی تلوار کو توحید آب دار اور طاقت ور بناتی ہے، ہم جتنا اللّٰہ کا قرب پاتے جائیں گے خودی کو اتنا ہی استحکام نصیب ہوتا جائے گا، پھر ہر خوف پس و پیش بکھر جائے گا، کیوں کہ ہر وقت زباں پر ہوگا:
” لا الہ الااللہ، لا الہ الااللہ”

Latest from ادب و مزاح