رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام:سعود عثمانی
اصل نام:سعود اشرف عثمانی
تاریخ پیدائش:06دسمبر 1958ء
جائے پیدائش:لاہور
زبان:اردو
اصناف:شاعری، تحقیق
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)بارش-2007
۔ (2)قوس-1997
۔ (3)جل پری
مستقل پتا:14۔دیناناتھ مینشن مال روڈ،لاہور
۔۔۔. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعود عثمانی کا تعلق ایک ایسے ادبی و علمی گھرانے سے ہے جس میں بہت عمدہ شاعر جناب ذکی کیفی (والد) اور مولانا جسٹس (ریٹائرڈ) تقی عثمانی (چچا) جیسے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔
سعود عثمانی، 6 دسمبر 1961ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں ہی مستقل سکونت ہے۔ بی ایس سی (فزکس) اسلامیہ کالج سول لائینز اور ایم بی اے (پنجاب یونیورسٹی) سے مکمل کیے اور اس وقت سے پبلشنگ اینڈ ایکسپورٹ کو سنبھال رہے ہیں ۔
سعود عثمانی کی شاعری کی 2 کتب بالترتیب ”قوس“ 1997 میں اور ”بارش“ 2007 میں منظر عام پر آئیں اور اپنی فکری جہتوں، اسلوب، جدید لہجے اور عمدہ پیرایۂ اظہار کے باعث ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔
سعود عثمانی کی ان کتب کے اعلی و عمدہ معیار کی وجہ سے ”قوس“ کو ”وزیر اعظم ادبی ایوارڈ“ اور ”بارش“ کو ”احمد ندیم قاسمی ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔
ان 2 کتب کے علاوہ سعود عثمانی نے کچھ کتابوں کے تراجم بھی کیے، جس پر انہیں "میاں محمد بخش ایوارڈ” اور "حسن قلم ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔
سعود عثمانی پاکستان اور بیرون ملک میں متعدد اقوامی و بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں ۔
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔
سفر سے پہلے پرکھ لینا ہم سفر کا خلوص
پھر آگے اپنا مقدر ہے، جو مقدر ہو
یہ زہر خون کے ہمراہ رقص کرتا ہے
بہت چکھا ہے محبت کا ذائقہ میں نے
اے عشق ِ سینہ سوز مرے دل سے دل ملا
اور یوں کہ بس کلام ہو اور گفتگو نہ ہو
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا
مرے لیے تو کوئی اور راستہ بھی نہیں
یہ جو میں اتنی سہولت سے تجھے چاہتا ہوں
دوست اک عمر میں ملتی ہے یہ آسانی بھی
یہ میری کاغذی کشتی ہے اور یہ میں ہوں
خبر نہیں کہ سمندر کا فیصلہ کیا ہے
تیری شکست اصل میں میری شکست ہے
تو مجھ سے ایک بار بھی ہارا تو میں گیا
ہر اک افق پہ مسلسل طلوع ہوتا ہوا
میں آفتاب کے مانند رہ گزار میں تھا
وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے
سو اس کا جشن بصدِ اہتمام میں نے کیا
مزاجِ درد کو سب لفظ بھی قبول نہ تھے
کسی کسی کو ترے غم کا استعارہ کیا
نظر تو اپنے مناظر کے رمز جانتی ہے
کہ آنکھ کہہ نہیں سکتی سنی سنائی ہوئی
اتنی سیاہ رات میں اتنی سی روشنی
یہ چاند وہ نہیں مرا مہتاب اور ہے
تمام عمر یہاں کس کا انتظار ہوا ہے
تمام عمر مرا کون انتظار کرے گا
بچھڑ کے جاتے ہوئے عشق ! فی امان اللہ
تو میرے ساتھ رہے گا ‘مگر خدا حافظ
عشق سامان بھی ہے بے سر و سامانی بھی
اسی درویش کے قدموں میں ہے سلطانی بھی
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ نہیں گیا مارا تو میں گیا
نمو پذیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں
ظہور کرنے کو ہے شہرِ آرزو مجھ میں
نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم
بھیگی ہوئی پلکوں کے کنارے کی طرح ہم
عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا
کہ دل کو برف کیا ذہن کو شرارہ کیا