یوم ولادت، یاسمین حمید

ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
یاسمین حمید
تاریخ پیدائش:18 مارچ 1951ء
جائے پیدائش:لاہور
زبان:اردو
اصناف:شاعری
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے
۔ 2018
۔ (2)دوسری زندگی-2007
۔ (3)فنا بھی ایک سراب-2001
۔ (4)پس آئینہ-1998
۔ (5)آدھا دن اور آدھی رات
۔ 1996
۔ (6)حصار بے در و دیوار-1991
ایوارڈز:ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایوارڈ
مستقل پتا:ڈی۔2؍124، فیزI
ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاسمین حمید تعلیم، ادب اور آرٹ کے شعبوں سے پچیس برس سے زیادہ عرصے سے منسلک ہیں۔ 2007 سے وہ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائینسز (لَمز) میں اردو ادب پڑھاتی آئی ہیں۔ لَمز میں وہ زبان و ادب کے گُرمانی سیَنٹر کی سربراہ بھی ہیں۔ یاسمین حمید اردو میں شاعری کی پانچ کتابیں تصنیف کر چکی ہیں: ’پسِ آئینہ‘ (۱1988)، ’حصارِ بے در و دیوار‘ (1991)، ’آدھا دن اور آدھی رات‘ (1996)، ’فنا بھی ایک سراب‘ (2001) اور ’بے ثمر پیروں کی خواہش (2012)۔ پہلی چار کتابیں 2007 میں سات سوَ صفحوں پر مشتمل مجموعے کے طور پر ’دوسری زندگی‘ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ اُن کی کتاب ’پاکستانی اردو وَرس‘ 2010 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی اور 2012 میں اسے یوُ بی ایَل اور جنگ نے ادبی تحسین کے اعزاز سے نوازا۔ 2013 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اُن کی تالیف کی ہوئی کتاب ’ڈے بریَک: رائیٹنگز آن فیض‘ شائع کی۔ اُن کی تالیف کی ہوئی ایک اور کتاب ’نیا اردو افسانہ‘ سنگِ میل نے 2014 میں شائع کی۔ 2008 میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ادبی خدمات کے لیے تمغۂ امتیاز سے نوازا۔
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے
اداسی تھی کہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہی
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا
ذرا دھیمی ہو تو خوشبو بھی بھلی لگتی ہے
آنکھ کو رنگ بھی سارے نہیں اچھے لگتے
اس عمارت کو گرا دو جو نظر آتی ہے
مرے اندر جو کھنڈر ہے اسے تعمیر کرو
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی
چراغ بجھ بھی گیا روشنی سفر میں رہی
جو ڈبوئے گی نہ پہنچائے گی ساحل پہ ہمیں
اب وہی موج سمندر سے ابھرنے کو ہے
اتنی بے ربط کہانی نہیں اچھی لگتی
اور واضح بھی اشارے نہیں اچھے لگتے
میں اب اس حرف سے کترا رہی ہوں
جو میری بات کا حاصل رہا ہے
اس کے شکستہ وار کا بھی رکھ لیا بھرم
یہ قرض ہم نے زخم کی صورت ادا کیا
مری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے
مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے
کیوں ڈھونڈنے نکلے ہیں نئے غم کا خزینہ
جب دل بھی وہی درد کی دولت بھی وہی ہے
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
کسی کے نرم لہجے کا قرینہ
مری آواز میں شامل رہا ہے
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی