یوم وفات، فیاض ہاشمی،معروف اردو شاعر، فلمی نغمہ نگار

0
25

یوم وفات، فیاض ہاشمی،معروف اردو شاعر، فلمی نغمہ نگار

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

پیدائش:18 اگست 1920ء
کولکاتا،برطانوی ہند
وفات:29 نومبر 2011ء
کراچی،پاکستان
شہریت: پاکستان
پیشہ:غنائی شاعر،نغمہ نگار

فیاض ہاشمی ہند و پاک کے معروف اردو شاعر، فلمی نغمہ نگار اور مقالمہ نویس تھے۔
حالات زندگی و فن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیاض ہاشمی 18 اگست 1920ء کو کلکتہ، برطانوی ہندستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کلکتہ گرامر اسکول سے حاصل کی اور باقاعدہ ہومیو پیتھ ڈاکٹر بنے لیکن پریکٹس نہیں کی کیونکہ رجحان شاعری کی طرف تھا۔ وہ آٹھ زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1935ء میں فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی بہت شعر کہنے شروع کردیے تھے جس کی بنیاد پر کلکتہ میں ہونے والے مشاعروں میں انھیں کمسن شاعر کی حیثیت سے بطورِ خاص بلوایا جاتا تھا۔ انھوں نے فلمی گیتوں میں اُردو اور ہندی کی آمیزش سے ایک نیا انداز اپنایا جس کی وجہ سے ان کے گیتوں کو لازوال شہرت عطا ہوئی۔ فیاض ہاشمی کی شاعری کے علاوہ موسیقی میں بھی شُد بُد رکھتے تھے۔ ان کی اس منفرد اور قابلِ قدر خصوصیت کی بنا پر H.M.V نامی گراموفون کمپنی کے ڈائریکٹر بنا دیے گئے۔ اس کمپنی میں فیاض ہاشمی کی ملاقات ایک بہت بڑے موسیقار کمل داس گپتا سے ہوئی۔ ان دونوں کی جوڑی خوب نبھی اور بڑے لازوال گیت تخلیق ہوئے۔ فیاض ہاشمی کا نام ہندستان بھر میں ایک کم عمر گیت نگار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ کمل داس گپتا اور فیاض ہاشمی کی جوڑی نے جگ موہن، طلعت محمود، جونتھیکا رائے، پنکج ملک اور ہیمنت کمار جیسے بڑے گلوکاروں کو موسیقی کی دنیا میں متعارف کرایا اور بے پناہ شہرت کا حامل بنایا۔ ان گلوکاروں کے مشہورگیتوں میں تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی، چودہویں منزل پہ ظالم آ گیا، اِک نیا انمول جیون مل گیا، یاد دلواتے ہیں وہ یوں میرا افسانہ مجھے، ہونٹوں سے گل فشاں ہیں وہ کے علاوہ طلعت محمود کی آواز میں بے شمار گیت اور غزلیں ہیں۔

اسی طرح پنکج ملک یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسنا ہنسانا، ہیمنت کمار کا بھلا تھا کتنا اپنا بچپن، جگ موہن کا یہ چاند نہیں تیری آرتی ہے، جوتھیکا رائے ان ہی کی وجہ سے بھجن کی شہزادی قرار پائیں۔ جوتھیکا رائے کا چپکے چپکے یوں ہنسنا کافی مشہور ہوا۔ 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کی مطالبے پر گراموفون کمپنی نے ان کا ٹرانسفر لاہور کر دیا اور انہیں H.M.V لاہور کا ڈائریکٹر بنادیا۔ یہاں انہوں بے شمار فنکاروں کو اکٹھا کیا جن میں منور سلطانہ، فریدہ خانم، زینت بیگم، سائیں اختر حسین اور سائیں مرنا کے علاوہ اور بھی بہت سے فنکار تھے۔ 1956ء میں رائلٹی کی ادائیگی پر اختلاف کی بنا پر وہ کمپنی سے علاحدہ ہو گئے اور کراچی آ گئے لیکن 1960ء میں ایس ایم یوسف انہیں دوبارہ لاہور لے آئے اور وہ ان کے ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ وہ پاکستان آئے تو انھوں نے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ استاد حسیب خاں ببن کار، استاد فتح علی خان، استاد بڑے غلام علی خان، استاد مبارک علی خان، ماسٹر غیاث حسین اور استاد محمد شریف خان پونچھ والے کو بھی گراموفون کمپنی میں ملازمت دلوائی۔ شاعر حزیں قادری اور مشیر کاظمی بھی انہی کے توسط سے کمپنی سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد کو بڑا مکالمہ نگار بنانے میں فیاض ہاشمی کی معاونت شامل ہے۔
ازدواجی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیاض ہاشمی نے تین شادیاں کیں، پہلی بیگم سے سات بچے ہیں، دوسری شادی اداکارہ کلاوتی سے کی جو مسلمان تھیں، ان سے ایک بیٹا تھا، تیسری بیگم سے چار بچے ہیں جو اپنی والدہ کے ساتھ امریکا میں مقیم ہیں۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔
1944ء – راگ رنگ (شاعری)
بطور نغمہ نگار مشہور فلمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیلی
آشیانہ
اولاد
دل کے ٹکڑے
سہاگن
لاکھوں میں ایک
زمانہ کیا کہے گا
عید مبارک
سویرا
ہزار داستان
ایسا بھی ہوتا ہے
مشہور فلمی نغمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جو نہیں ہے توکچھ بھی نہیں ہے (گلوکار: ایس بی جون، فلم: سویرا)
آج جانے کی ضد نہ کرو (گلوکار: حبیب ولی محمد، فلم: بادل اور بجلی)
تصویر تیری دل مِرا بہلا نہ سکے گی (گلوکار: طلعت محمود)
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے (گلوکار: نورجہاں، فلم: لاکھوں میں ایک)
گاڑی کو چلانا بابو (گلوکار: زبیدہ خانم، فلم: انوکھی)
قصہ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے (گلوکار: مہدی حسن، فلم: داستان)
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے (گلوکار: مہدی حسن، فلم: دیور بھابی)
نشان کوئی بھی نہ چھوڑا (گلوکار: مہدی حسن، فلم: نائلہ)
لٹ الجھی سلجھا رے بالم (گلوکار: نورجہاں، فلم: سوال)
ساتھی مجھے مل گیا (گلوکار: ناہید اختر، فلم: جاسوس)
ہمیں کوئی غم نہیں تھا غمِ عاشقی سے پہلے (گلوکار: مہدی حسن / مالا، فلم: شب بخیر)
رات سلونی آئی (گلوکار: ناہید نیازی، فلم: زمانہ کیا کہے گا)
مشہور ملی نغمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران، اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
سورج کرے سلام، چندا کرے سلام
وفات
۔۔۔۔۔۔۔
فیاض ہاشمی 29 نومبر، 2011ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔

غزلیں
۔۔۔۔۔۔
(1)
مستوں کے جو اصول ہیں ان کو نبھا کے پی
اک بوند بھی نہ کل کے لیے تو بچا کے پی
کیوں کر رہا ہے کالی گھٹاؤں کے انتظار
ان کی سیاہ زلف پہ نظریں جما کے پی
چوری خدا سے جب نہیں بندوں سے کس لیے
چھپنے میں کچھ مزا نہیں سب کو دکھا کے پی
فیاضؔ تو نیا ہے نہ پی بات مان لے
کڑوی بہت شراب ہے پانی ملا کے پی

غزل
۔۔۔۔۔۔
نہ تم میرے نہ دل میرا نہ جان ناتواں میری
تصور میں بھی آ سکتیں نہیں مجبوریاں میری
نہ تم آئے نہ چین آیا نہ موت آئی شب وعدہ
دل مضطر تھا میں تھا اور تھیں بے تابیاں میری
عبث نادانیوں پر آپ اپنی ناز کرتے ہیں
ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے نادانیاں میری
یہ منزل یہ حسیں منزل جوانی نام ہے جس کا
یہاں سے اور آگے بڑھنا یہ عمر رواں میری

Leave a reply